"کمرتوڑ مہنگائی اور عوام کی بے بسی"

 "کمرتوڑ مہنگائی اور عوام کی بے بسی"


"کمرتوڑ مہنگائی اور عوام کی بے بسی"

تحریر: سیف الرحمن

کمرتوڑ مہنگائی پہلے صرف سنتے اور پڑھتے تھے اب دیکھ اور بھگت رہے ہیں۔ عام آدمی اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں بے بس ہے۔ روز مرہ کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

معاشی ماہرین جو اندازے یا تجزیے پیش کرتے ہیں وہ عمومی طور پر سیاسی ہوتے ہیں۔ جس سیاسی پارٹی کی طرف ماہر معیشت کا جھکاؤ ہوتا ہے اس کا تجزیہ بھی اس کے نظریے یا بیانئے کے قریب ہوتا ہے۔

حقیقی طور پر تجزیہ کیا جائے تو آج جو مہنگائی ہے وہ ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ اس مہنگائی کی لہر نے وزیراعظم پاکستان کے عہدے کو بھی بے وقعت اور بے توقیر کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر معیشت کی الف ب سے بھی نابلد سیاسی کارکن اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کا بیانیہ لیکر معاشی تجزیے اور نعرے پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس میں عالمی مہنگائی کا کوئی قصور نہیں ہے یہ حکومت کی انتظامی ناکامی کا نتیجہ ہے۔ دکاندار کے پاس پڑی ہوئی چینی، دال، آٹے اور گھی کی قیمت پٹرول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی بڑھا دی جاتی ہے۔ اسی طرح کپڑے کی دکان پر پڑا ہوا کپڑا بھی دکاندار کو پٹرول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی لاکھوں روپے منافع دے جاتا ہے۔

دو دن قبل شہر کے معروف چوک میں واقع جوتوں کی دکان پر جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ جوتوں کی قیمت والی پرچی اتار کر بیچ رہے تھے۔ سیل مین سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ روز بروز پٹرول کی قیمت بڑھنے سے جوتوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے قیمت نہیں لکھی ہوئی۔ بحث مباحثہ کرنے پر دکان کا منیجر آ گیا اور سیل مین پر ناراض ہوا کہ قیمتوں میں اضافہ کی بات کیوں بتائی۔ اس کے بعد اس نے بڑے ماہرانہ انداز میں قیمتیں نا لکھنے کی حکمت بتائی مگر ہم تو پہلے ہی انصافی بھائیوں کے تجزیوں اور مہنگائی کے مارے ہوئے تھے کہاں اس کی باتوں میں آتے۔

کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے عام آدمی کا چولہا بند ہو گیا ہے۔ مگر حکومتی ترجمان اپنی بین بجا رہے ہیں اور اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے لیکر بیٹھی ہوئی ہیں۔ یہ مہنگائی عوام میں سخت بے چینی کا باعث بن رہی ہے اور کسی بھی بڑے طوفان کا باعث بن سکتی ہے۔

وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں اب خالی نعروں سے بات بننے والی نہیں ہے۔ نا ہی کسی خیالی ریلیف پیکج کا اعلان عوام کو مطمئن کر سکتا ہے۔

صرف اور صرف عملی اقدامات ہی مہنگائی کا حل ہیں۔ اگر اب بھی وزیراعظم کو ان کے مشیر حقیقی صورتحال سے آگاہ نہیں کرتے تو پھر مہنگائی مزید بڑھے گی۔