جعلی ڈگریوں کی فیکٹری بند۔ جعلی کالج کے پرنسپل کی جانب سے اعترافی بیان حلفی و اخبارات میں اشتہار شائع۔

 جعلی ڈگریوں کی فیکٹری بند۔ ٹیوٹا کرپشن مافیا کو بڑا دھچکا۔ جعلی کالج کے پرنسپل کی جانب سے اعترافی بیان حلفی و اخبارات میں اشتہار شائع۔

جعلی کالج کے پرنسپل کا اعترافی بیان حلفی

بہاولنگر (سیف الرحمن سے) جعلی ڈگریوں کی فیکٹری بند۔ اخبارات میں اشتہار برائے اطلاع عوام الناس شائع۔پرنسپل نے سندیں جاری نا کرنے کا بیان حلفی جمع کروا دیا۔ ٹیوٹا کرپشن مافیا پریشان۔ تفصیلات کے مطابق ٹیوٹا بہاولنگر میں ملازمتوں کے لیے عرصہ دراز سے جعلی سندیں جاری کرنے والے غیر رجسٹرڈ ادارے کے پرنسپل نے ڈپٹی کمشنر بہاولنگر کو اپنا بیان حلفی جمع کروا دیا ہے کہ وہ رجسٹریشن ہونے تک سندیں جاری نہیں کرے گا۔ اس بیان حلفی میں ادارے کے پرنسپل نے تسلیم کیا ہے کہ ان کا ادارہ رجسٹرڈ نہیں ہے اور انہوں نے رجسٹریشن کی درخواست دی ہے جب تک رجسٹریشن نہیں ملتی وہ کوئی سند یا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ پرنسپل کی جانب سے عوام الناس کی اطلاع کے لیے ایک اشتہار بھی شائع کروایا گیا ہے جس میں عوام کو اطلاع دی گئی ہے کہ ابھی تک اس کا ادارہ رجسٹرڈ نہیں ہے اور وہ رجسٹریشن ہونے تک کوئی سند یا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کر سکتا۔

جعلی کالج کے پرنسپل کی جانب سے عوام الناس کے لئے اخبارات میں شائع کیا گیا اشتہار

نیشنل کالج آف سکل ڈویلپمنٹ کے نام سے قائم یہ جعلی کالج عرصہ دراز سے ٹیوٹا بہاولنگر میں انسٹرکٹر کی نوکری کے لیے ٹیوٹا کرپشن مافیا کی پسندیدہ لڑکیوں کو جعلی سندیں جاری کرتا رہا ہے۔ ٹیوٹا کرپشن مافیا جن لڑکیوں کو نوازنا چاہتا تھا انکی سندیں اس کالج سے بنوا لیتا تھا اور انسٹرکٹر کی نوکری دے دی جاتی تھی۔ اس طرح گزشتہ کئی سالوں سے ٹیوٹا کرپشن مافیا نے انسٹرکٹرز کے جنسی استحصال کے ساتھ ساتھ سرکاری خزانے کو بھی لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ اگر کسی کالج میں ٹیوٹا کرپشن مافیا کی پسندیدہ جعلی سند یافتہ خواتین کو انسٹرکٹر نہیں رکھا جاتا تھا تو ٹیوٹا بہاولنگر کے ضلعی آفس میں تعینات کرپشن مافیا اس سربراہ ادارہ کے خلاف انتقامی کاروائی شروع کر دیتا تھا۔

شہری کی درخواست اور میڈیا کی نشاندہی پر ڈپٹی کمشنر بہاولنگر نے انکوائری کروائی اور رجسٹریشن کا ثبوت نا دینے پر اس جعلی کالج کو سیل کر دیا تھا۔

رجسٹریشن کاثبوت دینے کی بجائے تبلیغ کی آڑ میں چھپنے کی کوشش کے ساتھ جمع کروایا گیا جواب

 

 جس کے بعد اس ادارے کے پرنسپل نے بیان حلفی اور اخبارات میں اشتہار شائع کروا کر انتظامیہ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ آئندہ سندیں اور سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرے گا۔

دوران انکوائری اس جعلی کالج کے پرنسپل نے تحریری جواب جمع کروایا کہ اس نے غزالہ الیاس اور عاصمہ عنبرین کو ایک ایک سال کا ڈپلومہ جاری کیا ہے وہ درست اور قانون کے مطابق ہے۔ 

جبکہ کالج سیل ہونے کے بعد موصوف پرنسپل نے بیان حلفی جمع کروا کر تصدیق کی ہے کہ انکا ادراہ رجسٹرڈ نا ہے اور رجسٹریشن ہونے تک سند/ ڈگری جاری کرنے کا مجاز نا ہے۔ یہ دونوں خواتین 2012 اور 2013 سے اسی ادارے کے سرٹیفکیٹ پر ٹیوٹا بہاولنگر میں بطور انسٹرکٹر ملازمت کرتی رہی ہیں۔

جبکہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے کہ ڈپٹی کمشنر صاحب نے اس بات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے کہ اس جعلی کالج نے آج سے پہلے جو سندیں اور سرٹیفکیٹ جاری کیے ہیں ان کا کیا سٹیٹس ہے۔ پرنسپل ادارہ کی طرف سے بیان حلفی اعتراف جرم ہے کہ اس سے پہلے جاری کی گئی سندیں جاری کرنے کا اسے اختیار حاصل نہیں تھا۔

ٹیوٹا بہاولنگر کے اداروں میں کرپشن پر سول سوسائٹی میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

شہری کی جانب سے دی گئی درخواست کا عکس

 سول سوسائٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ اس ادارے کی پہلے سے جاری کی گئی سندوں کے بارے میں بھی پرنسپل کی جانب سے اشتہار شائع کروایا جائے۔ ان جعلی سندوں پر ٹیوٹا بہاولنگر میں نوکری کرنے والی خواتین سے تنخواہوں کی مدد میں وصول کی گئی رقم وصول کی جائے اور جعلی سندوں پر نوکری دینے والے ٹیوٹا بہاولنگر کے افسران و سربراہان ادارہ جات کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جائے۔

سول سوسائٹی کی جانب سے چیئرمین ٹیوٹا پنجاب سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ٹیوٹا بہاولنگر میں تعینات کرپشن مافیا بشمول ڈائریکٹر احسن جاوید، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس شاہد محمود اور سابق پرنسپل گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین کو فی الفور ضلع بدر کر کے شفاف انکوائری کا حکم جاری کریں۔