ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر کا "باوا آدم"

 ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر کا "باوا آدم"


تحریر: سیف الرحمن کلوکا


ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر کا "باوا آدم" 

تحریر

سیف الرحمن کلوکا

چیئرمین مجلس عاملہ ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹ بہاولنگر 


مشکل کام کسی نے ، کہیں سے اور کبھی تو شروع کرنا ہی تھا۔ کرپشن کے گھپ اندھیرے میں کسی نے تو چراغ جلانا ہی تھا۔ عام طور پر کرپشن کے لیے پولیس اور پٹواری مشہور ہیں۔ اگر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی اصل کرپشن شفافیت کے ساتھ سامنے آ جائے تو پولیس والے اور پٹواری فرشتے نظر آئیں گے۔ لوٹ مار اور وہ بھی بغیر کسی ڈر اور خوف کے جاری ہے۔ بلکہ یہ کہنا بالکل بجا ہو گا کہ ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر کا "باوا آدم" ہی نرالا ہے۔

کرپشن اور لوٹ مار کی ایسی داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

ایک طرف تو درجہ چہارم کی ملازمت کے لیے ماسٹر ڈگری ہولڈر دھکے کھاتے پھر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک میٹرک فیل شخص ہیلتھ اتھارٹی میں گریڈ 17 میں پہنچ کر ریٹائر ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹرز کی بھرتی کے غیر شفاف اور کرپشن میں ڈوبے نظام کی وجہ سے میرٹ پر آنے والے ڈاکٹرز انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور جعلی ڈاکٹری لائسنس پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر میں ملازمت مل جاتی ہے۔

جعلی تقرری کے لیٹر کے ذریعے سیکیورٹی گارڈ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر میں نوکری حاصل کرتا ہے اور قانون، شفافیت اور میرٹ کے سینے پر مونگ دلتا رہتا ہے۔ افسران کو پتا ہے کہ سیکیورٹی گارڈ کہیں پر بھی ڈیوٹی نہیں کرتا مگر نا صرف اسکی تنخواہ جاری ہے بلکہ وہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر سے مال کما کر اپنے سیاسی سرپرست کو دیتا ہے جس کی وجہ سے افسران چشم پوشی کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔

ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر جعل سازوں کا گڑھ بن چکی ہے۔ 63 ملازمین کی جعل سازی کے ذریعے بھرتی پکڑی جانے کے خوف سے ریکارڈ تک جلا دیا گیا ۔۔۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔۔۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر میں ڈاکٹرز ڈیوٹی کے دوران نشہ کرتے ہیں اور نشے کی حالت میں مریضوں کا علاج معالجہ کرتے ہیں۔ 

چند ماہ قبل سیکرٹری پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر پنجاب کی جانب سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر کے 5 ڈاکٹرز کا ڈوپ ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا گیا مگر اس پر عمل درآمد نا کیا گیا اور معاملہ دبا دیا گیا۔


ہیلتھ اتھارٹی کا ایک 17 اے کے تحت بھرتی ہونے والا کلرک اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات میں نیب کے ہاتھ لگا تو ضلع کے سیاسی ایوانوں میں ہلچل مچ گئی۔ جیل یاترا کے دوران موصوف کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھنے والے تھے۔

ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر کے ایک اکاؤنٹنٹ کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کرنے کی ہمت کسی افسر میں نہیں ہے۔۔۔

چند روز قبل سی ای او ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر نے کرپشن، بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات ثابت ہونے پر ہیلتھ اتھارٹی کے 5 مگرمچھوں کو ڈسمس فرام سروس کر دیا ہے۔

صحافیوں کے لیے یہ ایک خبر تھی۔ خبر چل گئی۔۔۔ صحافی نئی خبر کی تلاش میں نکل گئے۔۔۔ شہریوں کے لیے یہ کوئی دفتری معاملہ تھا۔۔۔ سو دفتر والے جانیں اور انکا کام جانے ۔۔۔ مگر حقیقت میں بہاولنگر کے شہریوں کے لیے یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ سی ای او ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر نے دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مافیا پر ہاتھ ڈالا ہے۔ اس اقدام پر سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر فائزہ کنول اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ یہ 5 ملازمین کے خلاف کاروائی نہیں بلکہ مافیا کے خلاف کاروائی کا نقطہ آغاز ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے کلرکس کے پاس بڑی بڑی گاڑیاں، کوٹھیاں اور جائیدادیں ہیں جبکہ چند سال قبل تک انکے پاس سائیکل بھی نہیں تھی۔ سول سوسائٹی کو ڈاکٹر فائزہ کنول کے اس دلیرانہ فیصلے پر انکے ساتھ کھڑے ہو جانا چاہیے اور ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر سے کرپشن مافیا اور انکے سرپرستوں کا صفایا کرنے کے لیے بھر پور سپورٹ کرنا چاہئیے۔

گو کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہیلتھ اتھارٹی بہاولنگر کا "باوا آدم" نرالا ہے مگر بارش کے پہلے قطرے کو موسلادھار بارش میں تبدیل کرنے کے لیے سول سوسائٹی اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔