سرکاری گدھ اور ڈیجیٹل مردم شماری

 سرکاری گدھ اور ڈیجیٹل مردم شماری


تحریر

سیف الرحمن کلوکا



سرکاری گدھ اور ڈیجیٹل مردم شماری

 

سیف الرحمن کلوکا 


صحافی کو ہر وقت خبر کی تلاش ہوتی ہے۔ میڈیا ہاؤسز کی خبر چلانے کی اپنی پالیسی اور معیار ہوتا ہے۔ اس بارے میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کسی رپورٹر نے گاؤں کی لڑائی میں ایک نوجوان کے قتل ہونے کی خبر فائل کی۔ وہ نیوز نا چلی تو رپورٹر نے نیوز ڈیسک پر رابطہ کر کے پوچھا کہ میری خبر نہیں چلی۔۔۔۔ نیوز ڈیسک سے بتایا گیا کہ ایک قتل کی نیوز نہیں چل سکتی۔۔۔۔ رپورٹر نے کہا کہ خبر چلوانے کے لیے میں پورے گاؤں کو تو مارنے سے رہا۔۔۔۔۔۔

تقریبا اسی طرح کی بے سروپا پالیسیاں اور قانون مختلف محکمہ جات میں موجود ہیں۔ بلکہ بعض اوقات تو لگتا ہے کہ قوانین آسانی پیدا کرنے کی بجائے مشکلات پیدا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اور ہمارے محکمے آفات کے منتظر رہتے ہیں اور قدرتی آفات کو مال بنانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ کچھ محکمے صرف آفات کے وقت کام کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ آفات نا آئیں تو ان محکموں کو فنڈز نہیں ملتے اور فنڈز نا ملیں تو ان محکمہ جات کے افسران کو صرف تنخواہوں پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔

زلزلہ متاثرین کی بحالی اور امداد کی آڑ میں جو لوٹ مار ہوئی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح سیلاب سے تباہ حال لوگوں کی بحالی کے زمہ دار سیلاب کے لیے دعائیں کرتے ہوں گے۔

کچھ عرصہ قبل ایک نہر میں شگاف کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ نہر ٹوٹنے کے فوری بعد کوریج کے لیے موقع پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں موجود ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ شگاف تقریباً 20 فٹ چوڑا ہے۔ چینلز کی خبر کے لیے کم ہے۔ شگاف بڑا لکھیں گے تو محکمہ نہر کے افسران کے دلوں میں لڈو پھوٹیں گے۔ کیونکہ جتنا بڑا شگاف ہو گا اتنا زیادہ بل بنے گا۔ محکمہ نہر کے عملے کی رفتار بھی بتا رہی تھی کہ وہ شگاف بڑا ہونے کے منتظر ہیں جبکہ دوسری جن لوگوں کی فصل ڈوب رہی تھی وہ سخت پریشان تھے


مخصوص حالات یا مخصوص کام کے لیے مختص محکموں میں سے ایک محکمہ شماریات کا ہے۔ اس کے اہلکار و افسران ایک مردم شماری سے دوسری مردم شماری کے درمیان صرف تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں اور مردم شماری کے دوران ملنے والے بجٹ پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں جس طرح گدھ مردہ جانور پر حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔۔ گزشتہ مردم شماری کے دوران ضلع بہاولنگر میں ٹرانسپورٹ کی مد میں بہت بڑے پیمانے پر کرپشن ہوئی۔ 

یکم مارچ 2023 کو ڈیجیٹل مردم شماری کا آغاز ہوا۔ اس مردم شماری کے لیے فیلڈ سٹاف کو ٹیبلیٹ فراہم کیے گئے اور ٹیبلٹ فراہم کرنے سے پہلے خرید بھی کیے گئے۔۔۔۔ اسی طرح مردم شماری کے عملے کے لیے مخصوص یونیفارم ، مارکرز اور دیگر بہت سی مدات میں خوب جی بھر کر مال بنایا گیا۔ایک  مردم شماری سے دوسری مردم شماری کے دوران چونکہ طویل وقفہ ہوتا ہے اس لیے محکمہ شماریات اور ضلعی انتظامیہ کے زمہ داران ہر لحاظ سے یہ خیال رکھتے ہیں کہ مردم شماری کے دوران زیادہ سے زیادہ مال کمایا جا سکے۔۔۔۔۔ مردم شماری کے دوران ڈیوٹی سر انجام دینے والے سپروائزرز کو ٹرانسپورٹ فراہمی کے لیے 6000 ہزار روپے فی گاڑی کرایہ پر حاصل کرنے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ سپروائزرز کو ٹرانسپورٹ دینے کی بجائے محکمہ شماریات کے حمیداللہ نے ٹھیکہ دار کے ساتھ مل کر گاڑیوں کے جعلی نمبرز کا اندراج شروع کر دیا۔۔۔۔ کچھ سپروائزرز کو گاڑی دینے کی بجائے 1000 روپے اور کچھ کو 1500 روپے دئیے گئے جبکہ کچھ سپروائزرز کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ سپروائزرز کی جانب سے ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے مطالبے پر سپروائزرز کو گالیاں اور دھمکیاں دی گئیں۔

میڈیا اس ساری کرپشن کہانی کو منظر عام پر لے آیا مگر محکمہ شماریات کے اہلکار اس حد تک بھوکے پیاسے تھے کہ میڈیا پر خبریں نشر ہونے کے باوجود اپنی روش پر قائم ہیں اور جھوٹی رپورٹس اور افسران بالا کو حصہ کی ادائیگی کے ذریعہ لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جن گاڑیوں کے کرایہ کا بل کلیم کیا جا رہا ہے انکے مالکان اور محکمہ شماریات کے اہلکار حمیداللہ نامی کے خلاف جعل سازی میں شامل ہونے پر ایف آئی آر درج کی جائے تو چند منٹ میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

ڈپٹی کمشنر بہاولنگر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے معاملے کی تحقیقات کیلئے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ جب تک سپروائزرز کو ٹرانسپورٹ کی فراہمی کی تصدیق نہیں ہو گی تب تک ٹھیکدار کو ادائیگی نہیں کی جائے گی۔

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ معاملے کو دبانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور کمیٹی کی کاروائی کی آڑ میں مزید دن بغیر ٹرانسپورٹ کے دن گزارے جا رہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر بہاولنگر کی ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے مسٹر حمیداللہ نے چند گاڑیاں منگوا کر سپروائزرز کی تصاویر بنوائیں۔ کرپشن مافیا کی دیدہ دلیری ملاحظہ فرمائیں کہ ایک ہی گاڑی کے ساتھ مختلف سپروائزرز کی تصاویر بنا کر کاغذی کاروائی پوری کر دی گئی. 

مردم شماری کے فیلڈ سٹاف میں ایک بھی خاتون کی ڈیوٹی نہیں لگی ہوئی مگر جعل ساز فراڈیوں نے حمیداللہ کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کی عہدیدار خاتون کا بھی گاڑیوں اور سپروائزرز کے ساتھ ویڈیو بیان ریکارڈ کروا کر مردم شماری کرنے والے سٹاف کے واٹس ایپ گروپس میں شئیر کر دیا۔ تحقیقات کرنے پر معلوم ہوا کہ ٹرانسپورٹ ٹھیکدار نے اس خاتون کے گھر واقع جہانگیر گارڈن میں خفیہ کیمپ آفس بنا رکھا ہے۔ ڈپٹی کمشنر بہاولنگر کے آفس میں مردم شماری کے لیے قائم کنٹرول روم میں تعینات بااثر اہلکار حمیداللہ دن میں کئی بار اس خفیہ کیمپ آفس میں چکر لگاتے ہیں۔ 

سپروائزرز نے ٹرانسپورٹ کا مطالبہ کیا تو انہیں ڈرایا دھمکایا گیا اور جب میڈیا نے انکی کرپشن اور ڈرامہ بازی بےنقاب کی تو خاتون نے مختلف ذرائع سے میڈیا نمائندگان کو اپروچ کرنے کی کوشش کی۔ خاتون کے ایک سفارشی نے بتایا کہ خاتون کے شوہر ایک ٹرانسپورٹر کے منشی ہیں اور مردم شماری کے ٹرانسپورٹ کے ٹھیکدار کے شراکت دار ہیں۔ 


 افسران اس معاملے میں مؤقف دینے کی بجائے "خاموشی بہترین حکمت عملی" کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے افسران کی خاموشی بتاتی ہے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری دال ہی کالی ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کنٹرول روم میں تعینات اہلکاروں نے تحصیلیں تقسیم کر رکھی ہیں۔ اور مختلف اہلکار مختلف تحصیلوں میں ٹھیکدار کے پارٹنر ہیں۔

ان حالات میں افسران کی سرپرستی حاصل نا ہونا کیسے ممکن ہے۔

میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد محکمہ شماریات کے اہلکار حمیداللہ کی ڈی سی آفس سے جہانگیر گارڈن اور جہانگیر گارڈن سے ڈی سی آفس دوڑ لگی ہوئی ہے۔

مردم شماری میں مال بنانے کی اس مہم کے دوران مردم شماری کی شفافیت اور اعدادوشمار کس حد تک قابل اعتبار ہوں گے جبکہ کچھ سپروائزرز نے ٹھیکدار کے ساتھ ملی بھگت کر کے اپنی ذاتی گاڑیوں کو ڈیوٹی والی گاڑیوں میں شامل کروایا ہوا ہے۔ اور ٹھیکدار کے ایک چہیتے سپروائزر ہر وقت جہانگیر گارڈن میں ٹرانسپورٹ ٹھیکدار کے خفیہ کیمپ آفس میں پائے جاتے ہیں اسی طرح ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ کچھ سپروائزرز جو کہ حمیداللہ نامی اہلکار کے فرنٹ مین ہیں وہ گھر میں بیٹھ کر ہی مردم شماری کی نگرانی کر رہے ہیں۔

مردم شماری جیسے حساس معاملے میں لوٹ مار کرنے میں ملوث سرکاری گدھ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں  ان کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کیے جانے چاہئیں تاکہ آئندہ کے لیے کرپشن کا راستہ روکا جا سکے۔