آتش بازی و ہوائی فائرنگ کے ذریعے خوشی کا خونیں اظہار

 آتش بازی و ہوائی فائرنگ کے ذریعے خوشی کا خونیں اظہار ۔۔۔۔

تحریر

سیف الرحمن کلوکا

آتش بازی و ہوائی فائرنگ کے ذریعے خوشی کا خونیں اظہار ۔۔۔۔


تحریر

سیف الرحمن کلوکا

تہوار چاہے مذہبی ہو یا قومی، شادی کی تقریب ہو یا الیکشن جیتنے کا جشن، اس کی خوشی کا اظہار مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے مگر ایک طریقہ جو مشترک ہے وہ ہے آتش بازی یا فائرنگ کر کے خوشی منانا۔ ہمارے جشن منانے کے اس طریقے پر شاید ہندو تہذیب کی چھاپ ہے۔ مگر جشن یا خوشی منانے کا یہ طریقہ بارہا خوشی کو ماتم میں تبدیل کرنے کا سبب بنا ہے۔

جگہ جگہ آتش بازی کا سامان فروخت ہو رہا ہے اور گلی محلوں میں آتش بازی کا سامان تیار ہو رہا ہے۔ اس بابت قانون کا مجھے علم نہیں ہے مگر کئی مرتبہ سنا ہے کہ پولیس نے آتش بازی کا سامان تیار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔

شادی بیاہ کی تقریبات میں آتش بازی اور فائرنگ معمول بن چکا ہے۔ مختلف واقعات میں انسانی جانیں بھی ضائع ہو چکی ہیں مگر اس قبیح فعل کو روکنے کے لیے مؤثر قانون موجود نہیں ہے یا پھر قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہا؟؟؟

شادی کی تقریبات میں فائرنگ کے نتیجے میں انسانی جانوں کے نقصان پر قانونی کاروائی بھی کم ہی دیکھنے میں آتی ہے کیونکہ عموماً مرنے والے اور مارنے والے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔

اس طرح کے واقعات کو رشتہ داری کی آڑ میں یا مقامی تعلقات کی بنا پر شہہ ملتی ہے اسی لیے ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ 

گزشتہ ہفتے شادی کی تقریب میں بارودی گولہ گیارہ سالہ بچے کے پیٹ میں جا لگا۔ جس سے بچے کے پیٹ میں سوراخ ہو گیا۔ زخمی بچے کو فوری طور پر واقع قریبی نجی ہسپتال میں لیجایا گیا جہاں پر موجود "پیسے کے پجاری" نے پولیس کیس ہونے کے باوجود معصوم بچے کے پیٹ کی سرجری کر کے ٹانکے لگا دئیے اور درد سے بے نیاز کرنے کے لیے نشے کا انجکشن لگا کر گھر بھیج دیا۔ مگر بچہ جانبر نا ہو سکا۔ بچے کے ورثاء نے گولہ چلانے والے کے خلاف کاروائی نا کرنے کا فیصلہ کیا اور اسی فیصلے کی بنیاد پر نجی ہسپتال کی انتظامیہ بھی کاروائی سے محفوظ رہی۔ یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ نجی ہسپتال کے غیر قانونی اور مجرمانہ عمل پر آنکھیں بند رکھنا جرم کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف ہے۔ مگر نا تو پولیس نے کوئی کاروائی کی اور نا ہی ہیلتھ اتھارٹی یا ہیلتھ کیئر کمشن نے اس سلسلے میں کوئی ایکشن لیا۔

اسی طرح کے ایک دوسرے واقعہ میں گزشتہ روز بارات کی تیاری کے موقع پر فائرنگ کرنے والے نشہ میں دھت باراتی نے 7 سالہ معصوم بچے کے سینے میں پستول کی گولی اتار دی۔ اس مجرمانہ فعل کو حادثے کا نام دیکر بچے کی تدفین کر دی گئی مگر بچے کی والدہ نے خاموش رہنے سے انکار کر دیا اور واقعہ کو تھوڑا مختلف رنگ دیکر قتل کی ایف آئی آر درج کروا دی۔ 

تیسرے واقعہ میں سرکلر روڈ پر خاتون ہوائی فائرنگ کی زد میں آ کر زخمی ہو گئی۔

آئے روز ہوائی فائرنگ کے واقعات اور خاص طور پر انسانی جانوں کا نقصان قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

شادیوں کی تقریبات میں فائرنگ اور آتش بازی جرم ہے مگر اس پر قابو صرف اسی صورت پایا جا سکتا ہے جب قانون سختی کے ساتھ نافذ ہو اور قانون ہاتھ میں لینے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔