"پاکستان میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال"

 "پاکستان میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال"


تحریر: سیف الرحمن کلوکا

"پاکستان میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال"


تحریر: سیف الرحمن کلوکا


آج کل سوشل میڈیا پر بھارت کے سائنسدانوں یا خلابازوں کے چاند پر پہنچنے کے بڑے چرچے ہیں۔ ان چرچوں کے پیچھے سیاسی مقاصد ہیں۔ سوشل میڈیا پر شور کرنے والوں کو چاند پر جانے والے مشنوں کی الف ب کا بھی معلوم نہیں ہے مگر پاکستان کو نیچا دکھانے کی غرض سے بھارت کے ان سائنسی کارناموں کی بھی تشہیر کی کا رہی ہے جو کارنامے ابھی بھارت نے سوچے بھی نہیں ہوں گے۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں پاکستان نے جو ترقی کی ہے وہ ان لوگوں کو نظر ہی نہیں آ رہی۔ پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ دنیا بھر میں صحت کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی مدد لی جاتی ہے مگر پاکستان میں ڈینگی مچھر کو کنٹرول کرنے کے لیے جس طرح ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے اسکی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ 

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈینگی کا پہلا کیس 1995 میں رپورٹ ہوا مگر عوام الناس کا تعارف اس جان لیوا مچھر سے اس وقت ہوا جب شہباز شریف وزیراعلی پنجاب تھے اور ڈینگی کی وبا نے پنجاب پر حملہ کر دیا۔ میاں شہباز شریف نے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کے بعد اس وبا پر قابو پا لیا۔ اسی دوران کسی "سیانے" مشیر نے وزیراعلی پنجاب کو ڈینگی پر کنٹرول کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کا مشورہ دیا اور پھر پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے ڈینگی مارنے کی شاہکار "ڈینگی ایپ" ایجاد کر کے پنجاب حکومت کی ساری سرکاری مشینری کو ڈینگی ایپ کے پیچھے لگا دیا۔

بیماریوں کے علاج اور کنٹرول کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈینگی مچھر مارنے کے لیے ڈینگی ایپ کا آزادانہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ ہر محکمے میں ڈینگی ایپ کا ایک فوکل پرسن مقرر ہے۔ ڈینگی ایپ کے ذریعے ڈینگی کنٹرول کرنے کے عمل کی نگرانی مرکزی ڈیش بورڈ پر آنے والے اعدادوشمار کے ذریعے کی جاتی ہے۔ ہر سرکاری سکول اور ہسپتال میں ڈینگی ایپ پر ڈیوٹی سر انجام دینے کے لیے ایک ٹیچر یا ملازم مقرر ہے۔  ڈینگی ایپ میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق پہلے کچرے والی جگہ کی تصویر بنائی جاتی ہے۔ پھر اس کے تین منٹ بعد کچرا صاف کر کے تصویر اپلوڈ کی جاتی ہے۔ 

چونکہ اکثر سکولز میں سکول ٹائم سے پہلے ہی صفائی کا عملہ صفائی کر چکا ہوتا ہے اس لیے ڈینگی مارنے کے لیے ڈسٹ بن میں کچرا سنبھال کر رکھا جاتا ہے ۔ پہلے کچرا وہاں ڈال کر تصویر بنائی جاتی ہے اور پھر ڈینگی ایپ کرنے والے ٹیچر کا معاون ملازم یا طالب علم/ طالبہ کچرا واپس ڈسٹ بن میں اگلے دن کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں اور پھر اس جگہ کی صفائی کے بعد کی تصویر اپلوڈ کر دی جاتی ہے۔

اس کے بعد باری آتی ہے فرش یا صحن میں کھڑے پانی کو خشک کرنے کی۔ اس مقصد کے لیے لوٹے یا کسی برتن میں پانی ساتھ رکھا جاتا ہے۔ پہلے یہ پانی فرش یا صحن میں گرایا جاتا ہے اور تصویر بنا کر محفوظ کر لی جاتی ہے۔ پھر پانی خشک کرنے والا عملہ حرکت میں آتا ہے اور لوٹے سے گرائے گئے پانی کو خشک کیا جاتا ہے اور پھر اس کی تصویر بنا لی جاتی ہے۔

ڈینگی مچھر مارنے کی ان دو دانش و حکمت سے بھرپور ایکٹویٹیز کے بعد نمبر آتا ہے پانی کی خراب ٹونٹی کی تصویر بنانے کا۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس کام کے لیے پانی کی خراب ٹونٹی کو ٹھیک کرنے کے لیے پلمبر بلوایا جاتا ہو گا تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ ٹونٹی روز خراب نہیں ہو سکتی مگر ڈینگی ایپ پر خراب ٹونٹی کی تصویر روزانہ بنانی ہوتی ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ پہلے ٹونٹی کو تھوڑا سا کھول دیا جائے اور گرتے ہوئے پانی کی تصویر ڈینگی ایپ پر بنائی جائے اور پھر اسی ٹونٹی کو اچھی طرح بند کر کے تصویر بنا لی جاتی ہے۔

ڈینگی مچھر بھی اس ساری کاروائی کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات تو ڈینگی ایپ کے خوف سے ہی سکول یا ہسپتال سے نکل کر سکول یا ہسپتال سے ملحقہ پانی کے جوہڑ یا کچرے سے بھرے کھلے میدانوں کی طرف نکل جاتا ہے۔

(جاری ہے)