معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا تشدد سے لاشوں کی چوری تک کا سفر

 معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا تشدد سے لاشوں کی چوری تک کا سفر

معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت کا تشدد سے لاشوں کی چوری تک کا سفر


تحریر: سیف الرحمن


سری لنکا کے شہری کی سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت ایک قومی سانحہ ہے۔ اس واقعہ سے نا صرف پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہوئی ہے بلکہ اندرون ملک بھی اس پر شدید بے چینی پائی گئی۔ کسی بھی انسان کو لاٹھیوں، ڈنڈوں اور آہنی راڈز کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دینا ایک وحشیانہ عمل ہے اور پھر اسے سڑک پر رکھ کر جلا دینا۔۔۔۔ اس پر مستزاد یہ کہ اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی یا اس قتل کی وجوہات کو مذہب سے جوڑا گیا۔

بلا شک و شبہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور اسلام نے کسی بھی انسان کی ناحق جان لینے کو جائز قرار نہیں دیا۔ اسلام ایسا آفاقی دین ہے جس نے 14 سو سال پہلے جانوروں تک کے حقوق بیان کر دئیے جب دنیا میں ہر طرف جہالت کا راج تھا۔

ایسے امن پسند اور انسانیت کی فلاح والے دین اور خاص طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی شفیق ہستی کی محبت کے نام پر کسی بھی انسان کی جان لینا مناسب عمل نہیں ہے۔

یہ بات طے شدہ ہے کہ پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس تمام مسلمانوں کے لیے حد درجہ قابل احترام و تکریم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کی شان میں گستاخی ناقابل معافی ہے۔ مگر اس کے لیے قانون موجود ہے۔ قانون ہاتھ میں لینا کسی صورت بھی جائز اور مناسب نہیں۔

اس واقعہ کے بعد کچھ لوگ ایک مخصوص مذہبی جماعت کو اس قتل کے محرکات کا زمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ بغیر تحقیق و تصدیق کے یہ بھی نامناسب ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چاہئیے کہ اس واقعہ کی شفاف تحقیقات کریں اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دلوائیں۔

سیالکوٹ واقعہ کے فوری بعد پنجاب کے صنعتی و تجارتی مرکز فیصل آباد میں خواتین کو برہنہ کرکے تشدد کا مبینہ واقعہ سامنے آیا۔ گو کہ اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنے کے بعد تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آیا ہے مگر اس کے باوجود یہ بات غور طلب ہے کہ تاجروں نے معمولی نقصان کے بدلے میں کم از کم خواتین کو مارا پیٹا تو ہے۔

اسی طرح فورٹ عباس کے علاقے مروٹ میں خواتین پر سرعام تشدد اور مارپیٹ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ مرد خواتین کو برے طریقے سے مار رہے ہیں۔

ان واقعات کی حساسیت سے انکار ممکن نہیں ہے یہ سارے سڑکوں اور بازاروں میں وقوع پزیر ہوئے ہیں مگر کل بہاولنگر کی تحصیل منچن آباد کے قبرستان سے ایک معصوم بچی کی لاش قبر سے غائب پائی گئی ہے۔ اس واقعہ کی تفصیلات آنی ابھی باقی ہیں مگر ابتدائی تفصیلات یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ کیا اب ہمیں قبرستان میں بھی سی سی ٹی وی کیمرے لگانے پڑیں گے یا ٹھیکری پہرہ قبرستان میں بھی لگانا ضروری ہو گیا ہے؟