مشعل راہ، پروفیسر نورالحق کلوکا

مشعل راہ،  پروفیسر نورالحق کلوکا
تحریر و ترتیب:  سیف الرحمن کلوکا بہاولنگر 


لاہور کے پوش علاقے جوہر ٹاؤن میں رہائش پذیر، ایف سی کالج لاہور سے ریٹائرمنٹ لینے والے اردو کے استاد پروفیسر نورالحق کلوکا صاحب کے بچے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ایک بیٹا انجینئر ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلینڈ چلا گیا ہے۔ چھوٹا بیٹا بھی برسر روزگار ہے۔ بیٹیاں بھی تعلیم یافتہ ہیں۔ زندگی کی تمام آسائشیں حاصل ہیں۔ پروفیسر صاحب ناسازی طبع کے باوجود خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔


پروفیسر صاحب زمانہ ملازمت میں اساتذہ حقوق کے علمبردار رہے ہیں۔ 1988 میں پنجاب یونیورسٹی کی سینٹ کے سینیٹر منتخب ہوئے۔ اتحاد اساتذہ کے بانی 3 یا 4 پروفیسرز میں سے ایک تھے۔اساتذہ کے حقوق کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دیں۔ پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے پنجاب کے سینئر وائس پریزیڈنٹ منتخب ہوئے۔ دنیاوی لحاظ سے اپنے پیشے میں عروج دیکھا۔
پروفیسر نورالحق کلوکا صاحب کی زندگی کے حالات بہت ہی دلچسپ ہیں۔ انکے اوائل عمری اور بچپن کے حالات، اور پھر زندگی میں مشکلات سے لڑتے جھگڑتے ترقی کی منازل طے کرنے کی روداد ڈراموں اور  خیالی کہانیوں والی ہے۔



  بہاولنگر سے تقریبا 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں کاٹ گنگا سنگھ میں کلوکا راجپوت برادری کے کچھ گھرانے قیام پاکستان سے پہلے ہی آباد تھے ۔ قیام پاکستان کے بعدمزید بہت سے خاندان  ہجرت کر کےگنگا سنگھ میں آ بسے اور یہ گاؤں کلوکا راجپوت برادری کا بڑا مرکز بن گیا۔  کاٹ گنگا سنگھ کلوکا راجپوت برادری کا ضلع بہاولنگر کا سب سے بڑا گاؤں ہے۔
 


 کاٹ گنگا سنگھ کے پرائمری سکول سے(جو کہ اب ہائی سکول بن چکا ہے)  جس میں نا کلاس روم تھے اور نا ہی فرنیچر نام کی کوئی چیز تھی۔ درخت کے سائے میں بیٹھ کر پانچ جماعتیں پاس کرنے کے بعد متوسط گھرانے کا ایک طالب علم تعلیم کی غرض سے بہاولنگر شہر میں آ جاتا ہے۔

سٹی ہائی سکول جو کہ اس زمانے میں میٹرک کے بعد انٹر کی کلاسز بھی کرواتا تھا وہاں داخلہ لیکر یہ طالب علم میٹرک اور پھر انٹر یہیں سے پاس کرتا ہے۔ 1963 میں بہاولنگر میں ڈگری کالج میں ڈگری کلاسز کا اجراء ہوتا ہے تو اس کی تھرڈ ائیر کی پہلی کلاس میں یہ طالب علم داخلہ لیتا ہے اور گریجویشن مکمل کرتا ہے۔ اسی دوران پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 کی جنگ چھڑ جاتی ہے۔ جنگ کے خاتمے پر متوسط گھرانے کا دیہاتی طالب علم ایم اے اردو کرنے کے لیے ملتان کے ایمرسن کالج میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ 

مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے اور یہ نوجوان اللہ پر بھروسہ کر کے لاہور کا رخ کرتا ہے۔بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ لاہور میں نا رہنے کے لیے جگہ تھی اور نا تعلیم جاری رکھنے کے لیے اخراجات۔  اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کو بے وسیلہ نوجوانوں کے لیے رول ماڈل بنانا تھا اس لیے اس نوجوان کو سرچھپانے کے لیے جگہ بھی اپنے گھر میں ہی دی۔ مولانا احمد علی لاہوری (رحمہ اللہ) کی مسجد میں رہنے کی جگہ مل گئی۔ 
 پرائیویٹ نوکری کا بندوبست بھی ہو گیا۔نوکری کے ساتھ تعلیم جاری رکھنا آسان کام نہیں تھا۔ پرائیویٹ نوکری کے ساتھ ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کے پرائیویٹ کالج میں داخلہ لیکر ایم اے اردو کیا۔ اور مختلف پرائیویٹ کالجز میں پڑھانا شروع کر دیا۔  اسی دوران ایک دوست کے ساتھ مل کر شاہ عالم مارکیٹ میں اپنا پرائیویٹ کالج شروع کر دیا جو کہ 25 سال تک چلتا رہا۔
 1980 میں پبلک سروس کمیشن کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا اور کہوٹہ میں بطور لیکچرار تقرری ہوئی۔ وہاں سے سانگلہ ہل، شالیمار کالج لاہور سے ہوتے ہوئے ایف سی کالج لاہور میں جا پہنچے۔1988 میں سینٹ آف پنجاب یونیورسٹی کے سینیٹر منتخب ہونے کے بعد اساتذہ کے حقوق کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔  
فوجی آمروں کے زمانہ اقتدار میں انکے ساتھ اختلاف رائے رکھنا اور اس کا برملا اظہار کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کو جنرل پرویز مشرف کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والا پہلا شخص سمجھا اور کہا جاتا ہے۔ مگر وہ پہلے شخص نا تھے بلکہ افتخار محمد چوہدری نے تو مشرف کے سامنے اس وقت نا کی تھی جب اس کے اقتدار کا سورج غروب کی طرف رواں دواں تھا۔
 اس سے پہلے ، بہت پہلے جب پرویز مشرف کے سامنے کوئی اونچی آواز میں سانس نہیں لے سکتا تھا اس وقت چند اساتذہ اور ڈاکٹرز نے پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ جانے کا اعلان کیا بلکہ اس نجکاری کی پالیسی کو ماننے سے انکار کر دیا۔پرویز مشرف نے اپنے مارشل لاء کے آغاز میں سرکاری کالجز اور ہسپتالوں کی نجکاری کا فیصلہ کیا اور عمل درآمد کا بھی اعلان کر دیا۔ مگر اساتذہ تنظیمیں اس کے اس فیصلے کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو گئیں۔
فوجی آمر عام طور پر انکار سننے کے عادی نہیں ہوتے۔ پرویز مشرف نے بھی اس فیصلے کے مخالفین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا اور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 7 معزز پروفیسر حضرات کو نوکری سے برخاست کر دیا۔ اسی طرح ہسپتالوں کی نجکاری کے مخالفین میں سے سے برخاست ہونے والوں میں موجودہ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد بھی شامل تھیں۔ جبکہ حریت کی علامت بننے والے 7  پروفیسرز میں سے ایک بہاولنگر کے نواحی گاؤں کاٹ گنگا سنگھ سے تعلق رکھنے والے کلوکا راجپوت برادری کے سپوت ایف سی کالج لاہور کے اردو کے استاد پروفیسر نورالحق کلوکا صاحب بھی تھے۔ فوجی آمر پرویز مشرف کے حکم پر برخاست ہونے والے ان بہادر استادوں نے ہتھیار نہیں ڈالے اور بعد ازاں نوکری پر بحال بھی ہو گئے۔
 پروفیسر صاحب کے شاگرد زندگی کے مختلف شعبوں میں ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہیں۔ پروفیسر نورالحق کلوکا صاحب نے ایک پسماندہ علاقے اور غریب گھر سے جا کر خوب عزت و مقام پایا اور اس میں انکی ذاتی محنت و کاوش کا کمال تھا پروفیسر نورالحق کلوکا صاحب نے 2004 میں نوکری سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ آج کل ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔پروفیسر نورالحق کلوکا صاحب نے جس طرح بے سروسامانی کو اپنے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا  اور ایک غیر معروف متوسط گھرانے سے ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا وہ نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو صحت و تندرستی عطا فرمائے آمین۔