بچوں کے حقوق کا عالمی دن اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا کردار

 بچوں کے حقوق کا عالمی دن اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا کردار

بچوں کے حقوق کا عالمی دن اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا کردار


تحریر: سیف الرحمن

فنانس سیکرٹری ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹ بہاولنگر


مختلف مواقع پر عالمی دن منائے جاتے ہیں جن کا مقصد لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا ہوتا ہے اور ان دنوں کی اہمیت اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ 20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ بچوں کے حقوق کا عالمی دن منانے کا رواج مغربی ممالک سے شروع ہوا مگر اس کا ٹارگٹ ترقی پزیر اور پسماندہ ممالک ہیں۔

پاکستان گو کہ ایک ترقی پزیر ملک ہے مگر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے اس ملک میں بچوں کے حقوق کا تحفظ اور آگاہی بوجوہ کم ہے۔ اسلام نے بڑوں کے حقوق کے ساتھ بچوں کے حقوق کا بھی تعین کر دیا ہوا ہے مگر بدقسمتی سے اسلامی قوانین کا نفاذ نا ہونے کی وجہ سے بچے اپنے حقوق سے محروم ہیں۔

بچوں کا سب سے بنیادی حق تعلیم ہے مگر لاکھوں بچے آج کے جدید دور میں بھی اس بنیادی حق سے محروم ہیں اور مختلف وجوہات کی بنا پر تعلیم کا حق بچوں سے چھین لیا گیا ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں قیام پاکستان سے لیکر اب تک ایسے بہت سے علاقے موجود ہیں جن میں گورنمنٹ سکول موجود نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں سکول تو موجود ہیں مگر جغرافیائی مسائل کی وجہ سے اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔

ہر حکومت اپنے دور میں تعلیم کو نعرے کی حد تک اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہے مگر عملی طور پر وقت کے تقاضوں کے مطابق کچھ بھی نہیں کیا جاتا۔

پنجاب میں ایک ادارہ ایسا بھی موجود ہے جو حکومت کی معاونت کر رہا ہے اور بچوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق کی فراہمی کے لیے اس ادارے کی کارکردگی عالمی سطح پر تسلیم کی گئی ہے۔

یہ ادارہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ہے جو کہ پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماڈل پر کام کرتے ہوئے تقریبا ساڑھے سات ہزار سے زائد پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو مالی معاونت دیتا ہے اور ان تعلیمی اداروں میں 25 لاکھ سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں سے تقریبا 25 سو کے قریب وہ سکول ہیں جو کہ محکمہ تعلیم کی نشاندہی والی جگہ پر بنائے گئے ہیں۔ ان سکولز کے قریب سرکاری سکول موجود نہیں ہیں۔ ان سکولز میں ان علاقوں کی پہلی نسلیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہی ہیں۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے الحاق شدہ سکولز میں بچوں کو تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔

ہر کلاس کے لیے الگ کلاس روم اور الگ ٹیچر کی فراہمی سکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ان سکولوں میں معیار تعلیم کی جانچ کے لیے ہر سال عالمی معیار کا کوالٹی ایشورنس ٹیسٹ کا انعقاد کرتی ہے جس میں سکول کو پاس ہونے کے لیے 75 فیصد رزلٹ دینا ہوتا ہے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے اپنے پارٹنر سکولز کے اساتذہ کرام کی تربیت کے لیے الگ ڈیپارٹمنٹ قائم کر رکھا ہے جو کہ وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اساتذہ کی ٹریننگ میں مصروف ہے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا مانیٹرنگ کا نظام انتہائی شفاف ہے۔ مانیٹرنگ ڈیپارٹمنٹ سکولز میں مختلف انڈیکیٹرز کی مدد سے معیاری سہولیات اور طلبہ و طالبات کی تصدیق کا عمل مکمل کرتا ہے۔ شفافیت کے لیے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکولز میں زیر تعلیم بچوں کے ب فارم، والدین کے کوائف کی نادرا سے تصدیق کروائی جاتی ہے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ سیکٹر کے لیے اور دوسرے صوبوں کی ایجوکیشن فاؤنڈیشنز کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتا ہے۔

پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے الحاق شدہ سکولز میں بہترین سہولیات اور معیاری تعلیم کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکولز میں داخل کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس کی بہترین مثال یہ ہے کہ پیف اور سرکاری سکول ایک ہی جگہ پر موجود ہیں مگر پیف کے سکولز میں بچوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

گزشتہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی اس منصوبے میں کیڑے نکال کر بند کرنے کی کوشش کی مگر ادارے کی شفافیت اور معیاری تعلیم حکومت کی راہ میں رکاوٹ بن گئیں۔ اب بھی بجٹ کی کمی کی وجہ سے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے سکولز میں بچوں کو داخلہ نہیں دیا جا رہا۔

حکومت پنجاب اور وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ آؤٹ آف سکول بچوں کو سکولوں میں لانے کے لیے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ پنجاب میں رہنے والے بچوں کے بنیادی حق تعلیم کو ان تک پہنچایا جا سکے۔

20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کے موقع پر حکومت پنجاب آؤٹ آف سکول بچوں کو سکولوں میں لانے کے میگا پراجیکٹ کا اعلان کر دے تو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پارٹنر سکولز ہراول دستہ کے طور پر پنجاب حکومت کا ساتھ دیں گے۔