انتخابی وٹہ سٹہ۔ ووٹ کو عزت دو اور تبدیلی کے نعروں کا دھڑن تختہ

 انتخابی وٹہ سٹہ۔ ووٹ کو عزت دو اور تبدیلی کے نعروں کا دھڑن تختہ

تحریر: سیف الرحمن

انتخابی وٹہ سٹہ۔ ووٹ کو عزت دو اور تبدیلی کے نعروں کا دھڑن تختہ


تحریر: سیف الرحمن

پاکستان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں میں کوئی اصول نہیں ہوتا اور نا ہی کوئی اخلاقی اقدار ہیں۔ صرف اقتدار کی بھوک ہے جو کہ پارٹیوں اور امیدواروں کا تعین کرتی ہے۔ سیاسی کارکن بھی اپنی جماعتوں کی ڈگر پر چلتے ہیں یا شاید چلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جسے آج زہر سمجھ کر تھوکتے ہیں کل اسے ہی شہد سمجھ کر چاٹ رہے ہوتے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے ایک نئی بات بھی سیاسی جماعتوں اور کارکنوں میں سامنے آئی ہے کہ ایسی کسی بھی بات کی نشاندھی کرنے والوں کو گالیاں دی جاتی ہیں حتیٰ کہ غدار تک قرار دے دیا جاتا ہے۔

 عام انتخابات 2018 میں خانیوال کی صوبائی اسمبلی کی نشست پر مسلم لیگ ن کے امیدوار نشاط ڈاھا 52 ہزار کے قریب ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار رانا سلیم 47 ہزار کے قریب ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ پیپلز پارٹی 6 ہزار ووٹ کے ساتھ تیسرے جبکہ تحریک لبیک 5 ہزار ووٹ کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہے۔

نشاط ڈاھا مرحوم اپوزیشن میں رہتے ہوئے بزدار حکومت سے جا ملے۔ جسے ن لیگ نے لوٹا ازم قرار دیا جبکہ پی ٹی آئی نے نشاط ڈاھا کے اس عمل کو حلال اور جائز قرار دیا۔

دونوں پارٹیوں کے کارکن اپنی اپنی پارٹی کے بیانیے کے مطابق نشاط ڈاھا پر تنقید اور دفاع کرتے رہے۔ نشاط ڈاھا کی وفات کی وجہ سے یہ نشست خالی ہوئی تو روایتی پاکستانی سیاست دیکھنے کو ملی۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے انتخابی وٹہ سٹہ کیا اور پچھلے الیکشن کے امیدواروں کا تبادلہ کر لیا۔ نشاط ڈاھا کی بیوہ کو پی ٹی آئی نے ٹکٹ دے دیا اور پی ٹی آئی کے سابق امیدوار رانا سلیم کو ن لیگ نے ٹکٹ دے دیا۔

دونوں سیاسی جماعتوں کے چند جذباتی کارکنوں نے پارٹیوں کے اس انتخابی وٹہ سٹہ پر کچھ دن تنقید کی اور پھر پرانی تنخواہ پر کام کرنا شروع کر دیا۔

اس انتخابی معرکے میں تحریک لبیک پاکستان نے ایک سرمایہ دار کو ٹکٹ دے کر سرپرائز دینے کی کوشش کی ہے۔ انتخابی نتائج تحریک لبیک کی اس سیاسی چال کو درست یا غلط ثابت کریں گے۔

پاکستان میں سیاست کسی نظریے یا منشور کے تابع نہیں بلکہ کچھ غیر مرئی قوتوں کے تعاون اور پیسے کی ریل پیل سے چلتی ہے۔ بڑے بڑے سرمایہ دار یا تو خود سیاست میں ہیں یا پھر سیاست دانوں پر انویسٹمنٹ کرتے ہیں۔ عام یا غریب آدمی کے اسمبلی میں جانے کی شاذونادر ہی مثال ملتی ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے بھی پاکستان کی سیاست میں روایتی انداز میں انٹری دے دی ہے۔

اس الیکشن کا نتیجہ کچھ بھی نکلے مگر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مقبول ترین نعروں تبدیلی ووٹ کو عزت دو کا دھڑن تختہ کر دیا ہے