کرپشن مافیا کی طاقت، درباریوں میں گھرا چیئرمین ٹیوٹا پنجاب۔ تحریر: سیف الرحمن

 کرپشن مافیا کی طاقت، درباریوں میں گھرا چیئرمین ٹیوٹا پنجاب

کرپشن مافیا کی طاقت، درباریوں میں گھرا چیئرمین ٹیوٹا پنجاب

تحریر: سیف الرحمن

ممبر ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹ بہاولنگر


بظاہر آزاد نظر آنے والا میڈیا مختلف قسم کی بندشوں میں قید ہے۔ کچھ قانونی بندشیں ہیں تو کچھ پیشہ ورانہ بندشیں۔ کچھ بندشیں ایسی ہیں کہ ہم ان کا کسی کو واضح طور پر بتا بھی نہیں سکتے۔ اسی طرح مافیاز کے خلاف لکھتے ہوئے یا رپورٹنگ کرتے ہوئے بھی مختلف قسم کے نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے۔

سوشل میڈیا صحافی حضرات کو اپنے دل کی بات کہنے اور حقائق رپورٹ کرنے میں بڑا مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ بڑے بڑے صحافی جو اپنے اخبار میں نہیں لکھ سکتے/ چینل پر نہیں بول سکتے یا ان کے اخبار نہیں چھاپ سکتے یا چینل آن ایئر نہیں کر سکتے وہ سب سوشل میڈیا پر کہا اور لکھا جا سکتا ہے۔

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا نے جہاں پر میڈیا کے اثرورسوخ کے پیمانے تبدیل کر دئیے ہیں وہیں پر محکمہ جات اور حکومتیں بھی اپنے رویے تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ڈیجیٹل اینڈ سوشل میڈیا نے عام آدمی کی رسائی حکومتی ایوانوں اور اعلیٰ افسران تک ممکن بنا دی ہے۔ 

موجودہ دور حکومت میں ہر حکومتی شخصیت اور محکمہ سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر ایکٹو ہے اور اپنے محکمہ سے متعلق شکایات کا ازالہ کر کے سوشل میڈیا پر بتایا بھی جا رہا ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران ہزاروں ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے والے واقعات پر قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے اور کم وسیلہ اور غریب متاثرین کو انصاف کی فراہمی ممکن ہوئی۔

ڈیجیٹل میڈیا کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر وطن عزیز کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا ونگ قائم کر رکھے ہیں جن کے ذریعے اپنی تشہیر اور مخالفین کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

پنجاب پولیس، سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ، محکمہ بلدیات سمیت تقریبا تمام محکمے سوشل میڈیا پر آنے والی شکایات پر فوری ایکشن لیتے ہیں اور انکوائری کے ذریعے سوشل میڈیا پر آنے والے واقعات کی تحقیقات کی جاتی ہیں۔

مگر پنجاب میں سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے عروج کے دور میں ایک ادارہ ایسا بھی موجود ہے جس کے افسران نے آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے، کانوں میں روئی دے رکھی ہے اور زبان پر تالے لگا رکھے ہیں۔ اپنے اہلکاروں و افسروں کو بغیر کسی تحقیق و انکوائری کے بے گناہ سمجھتے ہیں اور روایتی بیوروکریسی والے انداز میں شکایت کنندگان کو بلیک میلرز سمجھتے ہیں۔

پنجاب حکومت کی زیر نگرانی چلنے والا یہ ادارہ ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی ہے۔ اس ادارہ کے موجودہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے سرگرم کارکن علی سلمان صدیق ہیں جو کہ خود ٹویٹر پر ایکٹو ہیں۔ چیئرمین بننے کے ابتدائی ایام میں موصوف سوشل میڈیا پر ملنے والی شکایات پر رسپانس دیتے تھے مگر پھر ادارے میں تعینات بیوروکریسی کے ہاتھ چڑھ گئے۔

میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہر شکایت درست نہیں ہو سکتی مگر ہر شکایت غلط بھی نہیں ہوتی۔

ٹیوٹا پنجاب میں علی سلمان صدیق کے بطور چیئرمین آنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی ٹیوٹا کے افسران و ملازمین کے خلاف شکایت پر کوئی انکوائری نہیں کی جاتی بلکہ شکایت کرنے والے کو ٹیوٹا کا دشمن قرار دے کر شکایت ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جاتی ہے۔

ٹیوٹا بہاولنگر کے اداروں میں عرصہ دراز سے تعینات کرپشن مافیا کے خلاف جعلی داخلوں، جعلی تقرریوں، بوگس چیکس کے ذریعے خرد برد، جعلی ڈپلومہ جات جاری کرنے، ٹریننگ میٹریل سے گھروں کے فرنیچر بنانے، جعلی ڈپلومہ جات کے ذریعے ملازمتوں کی بندر بانٹ سمیت ثابت شدہ شکایات پر انکوائری نہیں کی گئی۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران ٹیوٹا حکام کے انصاف کے پیمانے دیکھ کر یقین ہو گیا کہ ٹیوٹا حکام ڈیجیٹل اینڈ سوشل میڈیا کے دور کی بجائے 80 کی دہائی میں رہ رہے ہیں۔

بہاولنگر میں ٹیوٹا کے ادارے گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین بہاولنگر میں گزشتہ کئی سالوں سے تعینات دو خواتین انسٹرکٹرز کو سندیں جعلی ثابت ہونے پر انسٹرکٹر کی نوکری سے فارغ کر دیا گیا۔ اس وقت کے ڈائریکٹر ٹیوٹا نے پرنسپل سے ان خواتین کو نوکری پر نا رکھنے پر تحریری وضاحت مانگ لی۔ ڈپٹی کمشنر بہاولنگر نے جعلی سندیں جاری کرنے والے ادارہ کو سیل کر دیا اور سربراہ ادارہ کی جانب سے بیان حلفی جمع کروا دیا گیا کہ آئندہ وہ کوئی سند یا ڈپلومہ جاری نہیں کرے گا تب وہ ادارہ کھولا گیا۔

اپنی من پسند خواتین کو انسٹرکٹر نا رکھنے پر ڈائریکٹر ٹیوٹا بہاولنگر احسن جاوید نے اس کالج میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری بیوٹیشن کا کورس غیر منظور شدہ قرار دے کر بند کرنے کے لیے ٹیوٹا سیکرٹریٹ لاہور کو خط لکھ دیا۔

ٹیوٹا سیکرٹریٹ میں بھی نمونے براجمان ہیں جنہوں نے برسوں سے جاری ڈپلومہ کورس بند کرنے کا حکم دے دیا۔

قانون، انصاف، میرٹ یہ الفاظ ٹیوٹا پنجاب میں ناپید ہو چکے ہیں۔ پسند کی ٹیچر نا رکھنے پر کورس ہی ختم کر دیا گیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کو اس بات پر تحقیقات کروانی چاہئیں کہ کئی سال تک بغیر منظوری کے ڈپلومہ کورس کیسے جاری رہا؟ شروع کس نے کیا؟ تنخواہوں کی ادائیگی کس کے حکم پر ہوئی؟ ڈپلومہ کلاس کی سٹوڈنٹس کی تعداد بڑھانے کی تحریری اجازت کس نے دی؟

عام طور پر معاشرے میں اسے بدمعاشی کہتے ہیں کہ جب کسی طاقتور کو فاؤل پلے سے روکا جاتا ہے تو وہ کھیل ہی ختم کروا دیتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کے لیے پنجابی کہاوت " ناں کھیڈاں گے تے ناں ای کھیڈن دیاں گے" مشہور ہے۔

ٹیوٹا بہاولنگر کے یہی افسران اپنے ایسے کرتوت منظر عام پر آ جانے کے بعد بھی تحریری طور پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ " میرٹ پسند اور معزز افسر ہیں"۔

یہ اپنی حرکتوں اور کرتوتوں کی وجہ سے ذرہ برابر بھی معزز نہیں ہیں اور میرٹ تو انکا یہ ہے کہ اپنی پسند کی جعلی ڈپلومہ والی ٹیچرز بیوٹیشن کلاس کی انسٹرکٹر نہیں رہیں تو کلاس ہی بند کر دی۔

ٹیوٹا کرپشن مافیا کے خلاف ڈیجیٹل اینڈ سوشل میڈیا کے علاوہ مین سٹریم میڈیا پر بھی کرپشن کی نشاندہی کی گئی مگر

ٹیوٹا پنجاب کے چیئرمین نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسی ناقابل برداشت کرپشن اور غنڈہ گردی پر آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اور خوش فہمی کا شکار ہیں یا پھر کرپشن مافیا کے ایجنڈے کے محافظ بنے ہوئے ہیں۔