اڈہ نہر گجیانی، ابھرتا ہوا تجارتی مرکز

اڈہ گجیانی کو تجارتی، سیاسی و سماجی مرکز کی حیثیت حاصل ہے

ازقلم : محمداحمد خیالی 
ترتیب و تدوین: محمداحمد خیالی اور محمد عرفان۔ 
          اڈہ نہر گجیانی                                        

      اڈہ نہر گجیانی پنجاب کے ضلع بہاولنگر اور تحصیل بھی بہاولنگر میں ھارون آباد روڈ پہ واقع ایک گاؤں ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اڈہ گجیانی کی آبادی تقریباً 25 ہزار ہے۔  یہاں مختلف قوموں اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ 

  اللہ پاک نے اڈہ نہر گجیانی کو وسیع میدانوں سے نوازا ہے۔ مختلف انواع و اقسام کی لہلاہاتی فصلیں   میدانوں میں قابل رشک منظر پیدا کرتی ہیں۔  گاؤں کے درمیان سے بہتی نہر نہ صرف لوگوں کی لب کی تشنگی کو مٹاتی ہے بلکہ علاقہ کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔

         لوگ سادہ مزاج اور ملنسار ہیں ۔ لوگوں کا رہن سہن سادہ ہے ۔علاقائی لباس میں شلوار قمیض شامل ہیں ۔ آج بھی چند بزرگ اجتماعی بیٹھک پر حقہ پیتے ہیں  ۔ علاقائی بولی اور زبان پنجابی ہے جو کہ مختلف زبانوں کا مکسچر ہے 

  لوگوں کا ذریعہ روزگار زمینداری،و  مزدوری اور سرکاری ملازمت ہے ۔ مزدوری کے ذرائع میں پلّے داری کوئلے کی بھٹّیاں اور دیگر مزدوری کے ذرائع  شامل ہیں ۔ زمینداری میں لوگ فصلیں کاشت کرتے ہیں اور جانور پالتے ہیں ان ذرائع سے لوگ اپنی گزر بسر کرتے ہیں فصلوں میں گندم،جوار،باجرہ اور کپاس شامل ہے جبکہ پالتو جانوروں میں گائے بھینس بکری اور اونٹ شامل ہیں ۔ زیادہ تر معشیت کا انحصار زمیندارہ پر ہے 
  تعلیمی اداروں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو رائج موجودہ تعلیمی نظام پرائیویٹ سکولوں پر منحصر ہے علاقے میں ایک گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول ہے اور گورنمنٹ گرلز ہائی سکول علاقے میں موجود ہی نہیں ہےجو کہ لمحۂ فکریہ ہے۔علاقے میں خوش قسمتی سے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول موجود ہے جس کی وجہ سے علاقے کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ اس کی عمارت بہت دلکش دلفریب اور خوبصورت ہے ۔ بچوں کی تعلیم میں دلچسپی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی تحریریں عمارت کی دیواروں پر قلم بند کی گئی ہیں ۔یہ ھائی سکول بابا نور محمد بلوچ(مرحوم) کی طرف سے علاقے والوں کیلئے تحفہ ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں الزمر اور ہاک گرائمر سکول کو اہمیت حاصل ہے ۔

علاقے میں سر عبدالرحمٰن کلوکا صاحب تعلیمی میدان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

          علاج و معالجہ کے لئے دہی مرکز صحت کا قیام ہےجس کا نام بنیادی صحت مرکز کوٹ ہیمراج ہے 
 جس میں صرف طبی امداد کی سہولت میسر ہے۔ ہسپتال کی عمارت و صحن کی تزیئن و آرائش بہت عمدہ ہے۔اور یہ دیہی ہسپتال بھی بابا نور محمد بلوچ(مرحوم) کی ہی بدولت ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹر محمد اقبال( میں) بھی علاقے کیلئے کسی مسیحہ سے کم نہیں۔دیگر ڈاکٹر حضرات بھی علاقے کیلئے خوش آئند ہیں۔ 

        سیاسی و عوامی معاملات حل کرنے کے لیے یونین کونسل سوائی والا عرصہ دراز سے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔علاقے کی ہر دلعزیز سیاسی شخصیت پیرجابرحسین بودلہ(مرحوم) کی کاوشوں سے علاقے نے خوب ترقی کی۔ اس کے علاوہ دیگر سیاسی شخصیات جن میں پیر جابر حسین بودلہ (مرحوم) کے بھتیجے میاں پیر جہانگیر احمد بودلہ؛میاں شمعون گدارہ جٹ؛میاں فاروق احمد بودلہ:میاں سلیم سکھیرا اور میاں عبدالرزاق ڈھڈی علاقے کی خوشحالی کیلئے سر گرم ہیں
 سرکاری معاملات کے حل کے لئے ڈاکخانہ موجود ہے ۔جو سرکاری مسائل و معاملات کی دیکھ ریکھ کرتا ہے ۔

                        علاقے کی مشہور تاجر شخصیات میں ٹھیکیدار میاں محمد صدیق مے اور  ٹھیکیدارمیاں منظور احمد کھوکھر کے نام سر فہرست ہیں۔یہ شخصیات تجارت کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہیں۔
علاقے کی معروف مذہبی شخصیات میں سید عبدالستار شاہ صاحب، مولانا عبد الحفیظ نظامی صاحب، مولانا شاہ جنید صاحب ہیں اس کے علاوہ مرحوم حافظ نور حسن صاحب اور مولانا عبد الشکور صاحب مرحوم کی بھی بےمثال دینی خدمات ہیں۔
بڑے دینی مدارس میں جامعہ قادریہ انوریہ، جامع دارارقم اور مدرسہ حسینیہ صابریہ جمال مصطفیٰ ہیں۔
       متعدد کھیلوں میں کھیلے جانے والے مشہور ترین کھیل والی بال اور کرکٹ کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔ جبکہ باقی کھیل معدوم ہوتے نظر آتے ہیں 

       علاقہ میں ایک ولی اللہ کا مزار قائم ہے جن کا قلمی نام "حضرت پیربابا احمد شاہ بخاری" ہے۔ تاریخی حوالے سے یہ مزار قدیم  ہے ۔ لوگ اپنی حاجات کی تکمیل کے لئے پیر کامل کے آستانہ عالیہ  پر حاضر ہوتے ہیں اور اللہ ان کے مرادوں کو شرف قبولیت عطا فرماتا ہے۔  

         جس طرح رب کائنات نے اس سرزمین کو خوبصورت اور دلکش وسیع میدانوں جیسی انمول نعمتیں عطا کی ہیں اس کے برعکس اس دھرتی کو چند قابل غور و خوض  درپیش مسائل بھی در پیش ہیں۔
 
  علاقہ کی جناز گاہ کی حالت زار ہے کوئی چار دیواری نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے علاقے کے جانور مثلاً کتّے وغیرہ یہاں پیشاب کرتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ کچھ نشئی حضرات بھی یہیں پڑے رہتے ہیں۔

         علاقہ کی گزر گاہوں کی حالت قابل افسوس اور انتہائی ابتر ہے ۔ گلیوں کی گندگی سے انسانی صحت متاثر ہو رہی ہے اور متعدد بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔

         اگر مہار والی روڈ کے حوالے سے  بات کی جائے تو روڈ کی حالت تشویشناک ہے۔ جگہ جگہ پر کھڈوں کی وجہ سے کئی آئے  روز حادثات رونما ہو رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں کئی قیمتی جانیں موت کی نظر ہوگئی ہیں ۔

علاقے میں ایک گرلز ہائی سکول بھی ہونا چاہیئے تاکہ غریب لوگوں کی بچیاں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو سکیں

ہماری سیاسی شخصیات اورحکومت وقت سے التماس ہے کہ درج بالا مسائل پر غور کیا جائے اور فوری طور پر انہیں حل کیا جائے۔