اردو کہانیاں

 


جلی روٹی قسط1 

اظہر۔۔۔۔!!

جی دادی اماں 

کھانا کھا لیا

آپ سے پہلے کیسے کھا سکتے ہیں ، وہ گرما گرم چکن سوپ اور ساتھ میں تندوری نان آپ کے لئے ابھی لے کے آتا ہوں دادی اماں۔

یہ چکن سوپ کی جگہ مرغی شوربا کہہ دیتے تو کیسا لگتا

دادی اماں انگلش میڈیم اسکول کی فیس جب گھر والے ادا کر رہے ہیں تو تھوڑا بہت اثر اس کا بھی ہو گا ۔ میں آپ کے لئے کھانا لے کے آتا ہوں اور اس کے بعد۔۔۔

اس کے بعد کیا ؟

 اوہو وہ کہانی ، ہونہار طالبعلم کی ، جس کا آپ نے وعدہ کر رکھا ہے سنائیں گی

وہ جو تمہاری نانی اماں نے سنائی تھی وہ کیسی تھی

دادی اماں ، نانی اماں کی کہانی اپنی جگہ اور آپ کی کہانی اپنی جگہ

اچھا چلو تم بھی کھانا کھا لو پھر ہم دونوں پیٹ پوجا کرکے کہانی کے ہر رخ سے پردہ اٹھاتے ہیں

اظہر دادی اماں کا کھانا انہیں دے کر اپنے والدین کے ساتھ جلدی جلدی کھانے میں مصروف ہو گیا ، باپ کے چہرے پہ مسکراہٹ سی ابھری ، لگ رہا ہے دادی اماں سے کہانی سننے کا وعدہ لے آئے ہو 

ڈیڈی کل اسکول نہیں جانا چھٹی ہے ناں اس لئے۔۔

لیکن کھانا آرام سے کھاو بیٹے ، دادی اماں ادھر ہی ہیں ، ماں نے جونہی اظہر کو سمجھایا تو اس کی تیز رفتاری میں کمی واقع ہوئی ۔

ارے کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھو کے دادی اماں کے پاس جاو

ڈیڈی بہتری اسی میں ہے کہ دادی اماں کے برتن اٹھا لاوں تو ایک ہی بار ہاتھ دھو کر دادی اماں سے کہانی سنوں گاورنہ دادی اماں سو گئیں تو

بہت شرارتی ہو تے جا رہے ہو تم بروقت جواب دینے میں کمال رکھتے ہو

آپ پہ گیا ہوں ممی جان کہہ کے وہ چل دیا اور باپ کی ہنستی نگاہیں بیگم کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔

اظہر دادی اماں کے ہاں سے برتن سمیٹے باورچی خانے میں رکھ کے جلدی جلدی ہاتھ دھو کر دادی کی جانب چل دیا کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ دادی اماں نے آرام کرنے کے لئے اگر کروٹ لے لی تو گئی کہانی اگلے ہفتے پر اور کون جانے اس وقت ان کا موڈ کیسا ہو، دادی اماں کیا خیال ہے ،اب بیٹھ جاوں آپ کی چارپائی پر ۔۔

ہاں اظہر بیٹے سیدھے ہو کے بیٹھ جاو

دادی اماں آپ کی شفقت بھری گود میں سر رکھ کے کہانی سننے کی تمنا ہے۔

کیوں نہیں میرے لعل ، اور اظہر ٹھک سے دادی اماں کی گود میں سر ٹکائے کہانی سننے کے لئے تیار ہو گیا۔

ہاں تو اظہر بیٹے ایک گاوں میں درمیانہ طبقہ کے ایک زمیندار کے ہاں ان کا اکلوتا بیٹاافضل جب ہائی اسکول سے میٹرک اچھے نمبروں سے پاس کر گیا تو باپ نے مزید پڑھائی کے لئے کالج میں داخل کرا دیا ۔ افضل ہر روز کالج جاتا اور پڑھائی کے بعد سیدھا گھر آ کے باپ کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرتا۔ یوں ایک خاندان ہنسی خوشی اپنے محدود ذرائع میں زندگی بسر کر رہا تھاکہ ۔۔۔

کیا ہوا دادی اماں ؟

کچھ نہیں بیٹے مجھے تھوڑا دم تو مارنے دے۔

تھک گئی ہو دادی اماں لو میں آپ کی ٹانگیں دباتا ہوں مگر کہانی مکمل سنا کے سونا

ہاں اظہر تو میں کہہ رہی تھی کہ زندگی اچھی خاصی بسر ہو رہی تھی کہ اچانک باپ کی بیماری طول پکڑ گئی ، افضل ایف ایس سی کے امتحان میں ضلع بھر میں اول آیا ۔ والدین کی خوشی انتہا کو پہنچ گئی ۔ گاوں والوں کا سر فخر سے اونچا ہو گیا ، ہر ایک مبارکباد دے رہا تھا اور بہت سی خوشیاں سمیٹے باپ اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا ۔ بیوی خاموش ہو کے رہ گئی لیکن بیٹے افضل کو برابر دلاسہ دئے جارہی تھی کہ وہ مزید پڑھائی کرئے ۔ کچھ ہی دنوں بعد افضل نے میڈیکل کالج میں داخلہ کے لئے درخواست دی جو اس کی قابلیت پہ منظور ہو گئی ۔ 

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔