جرائم پیشہ پولیس اور غیر محفوظ عوام: تحریر: سیف الرحمن

 جرائم پیشہ پولیس اور غیر محفوظ عوام

جرائم پیشہ پولیس اور غیر محفوظ عوام

تحریر

سیف الرحمن

بہاولنگر


اغواء برائے تاوان کے کیس میں ملوث نوکری سے فارغ کیا گیا کانسٹیبل بحال ہوتے ہی چوروں کے گینگ کی سرپرستی کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ صرف ایک خبر نہیں بلکہ پولیس کی وردی اور پولیس کے نظام پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ 

 پولیس کو عوام کا محافظ کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں پولیس عوام کی محافظ بن کر بھی دکھاتی ہے۔ مگر پاکستان میں اور بالخصوص پنجاب میں پولیس کی عوام پر ایک ناقابل بیان قسم کی دہشت ہے۔ عوام پولیس کو اپنا محافظ نا سمجھتی ہے اور نا ہی کہتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اس بات علم ہے کہ پولیس قانون پر عمل درآمد کروانے کی بجائے قانون کو پاؤں کے نیچے روندتی ہے اس لیے ہر الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے ایجنڈے میں پولیس ریفارمز شامل ہوتی ہیں اور جناب عثمان خان بزدار سمیت پنجاب کے تقریبا ہر وزیر اعلیٰ نے پنجاب کی عوام کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر تھانہ کلچر تبدیل کرنے کے دعوے اور اعلانات کیے مگر عملی اقدامات نا ہونے کے برابر کیے گئے جس کی وجہ سے پولیس کی وردی میں ملبوس قانون شکن دیدہ دلیری سے اپنے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عام شہری عمومی طور پر پولیس سے خوف زدہ ہی رہتا ہے۔ پولیس جرائم کی سرپرستی میں مہارت کے ساتھ ساتھ اختیار بھی رکھتی ہے۔

گزشتہ صرف ایک سال کے دوران جب سے موجودہ ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ٹرانسفر ہو کر بہاولنگر آئے ہیں تب سے جرائم میں ملوث پولیس آفیشلز کی چاندی ہو گئی ہے۔ پولیس ملازمین دیدہ دلیری سے جرائم کرتے ہیں یا جرائم کی سرپرستی کرتے ہیں اور واجبی سی کاغذی سزا کے بعد دوبارہ نوکریوں پر بحال ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ دیدہ دلیری کی انتہا ہے میڈیا پر ہائی لائٹ ہو جانے والے کیسز میں ملوث آفیشلز بھی دھڑلے سے بحال کیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ سال تھانہ سٹی بی ڈویثرن بہاولنگر میں تعینات ایس ایچ او مسٹر مطلوب کمبوہ کو 5 دیگر ملازمین کے ساتھ اغواء برائے تاوان کے الزام میں ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ بعد ازاں موصوف اپنے اثر و رسوخ کے بل بوتے پر نوکری پر بحال ہو گئے اور کچھ عرصہ پولیس لائن میں گزار کر آج کل تھانہ منڈی مدرسہ کے ایس ایچ او تعینات ہو چکے ہیں۔ یہ وہی تھانہ ہے جہاں ڈاکوؤں نے ایس ایچ او کو سر میں گولیاں مار کر زخمی کر دیا تھا۔ اتنے حساس تھانے میں جرائم میں ملوث ایس ایچ او کا تعینات ہونا پولیس نظام پر سوالیہ نشان ہے۔ نہلے پہ دہلا یہ ہوا کہ اغواء برائے تاوان کے کیس میں مسٹر مطلوب کمبوہ کے ساتھ نوکری سے فارغ ہونے والے ایک کانسٹیبل عاقب نامی کو یکم مارچ 2022 کو نوکری پر بحال کر دیا گیا۔ موصوف ابھی تک پولیس لائن میں ہی ہیں۔ ٹریکٹر ٹرالی چوری کے ایک کیس میں بہاولنگر پولیس نے ملزمان گرفتار کیے۔ تفتیش کے دوران ملزمان نے انکشاف کیا کہ وہ چوری کی وارداتیں کرتے ہیں اور ان کی سرپرستی کانسٹیبل عاقب کرتا ہے۔ ملزمان نے بتایا کہ چوری شدہ مال کانسٹیبل عاقب ملک کے مختلف حصوں میں پہنچاتا ہے۔ جس اغواء برائے تاوان کے کیس میں بہاولنگر پولیس کے آفیشلز ملازمت سے سبکدوش کیے گئے تھے اس میں بھی یہ سرکاری گاڑی میں اور باوردی منشیات کی سمگلنگ کرنے کے لیے ضلع پاکپتن کی حدود میں گئے تھے 

اسی طرح کچھ عرصہ قبل پولیس ملازمین وردی میں منشیات فروخت کرتے ہوئے پولیس نے گرفتار کر لیے تھے۔ چند ہفتے قبل ڈونگہ بونگہ پولیس کے شیر جوان بھی ایک گھر میں گھس گئے تھے اور منشیات فروشی کا الزام لگا کر بے گناہ خواتین اور بچوں کو اٹھا لائے تھے میڈیا اور اہل علاقہ کے پہنچنے پر ایس ایچ او نے معاملہ صلح صفائی سے ختم کروا دیا۔

اسی طرح چند ہفتے قبل تھانہ سی آئی اے سٹاف بہاولنگر کے اہلکار ایک نوجوان کو بلاجواز بغیر گرفتار کیے تھانے لے آئے اور چھوڑنے کے عوض رشوت طلب کی۔ نوجوان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈی پی او بہاولنگر نے تھانہ سی آئی اے سٹاف کے اہلکاروں کو معطل کر دیا۔ پچھلے ہفتے جیولرز مارکیٹ میں چار کروڑ روپے مالیت سے زائد کی ڈکیتی ہوئی۔

پنجاب پولیس رشوت ستانی کے لیے بدنام تھی مگر حالیہ سالوں میں پولیس آفیشلز کا گینگز بنا کر منشیات فروشی اور چوری یا ڈکیتی میں براہ راست ملوث ہونا انتہائی خطرناک علامت ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ضلع بہاولنگر میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب رہی ہے۔ محرم الحرام کے جلوس پر ہونے والے بم حملے سمیت ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران گینگ ریپ اور قتل جیسے سنگین جرائم ہوئے۔ مگر ان جرائم سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ پولیس آفیشلز جرائم میں براہ راست ملوث ہیں اور ان کے خلاف کاروائی کے نام پر عوام کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ اگر اغواء برائے تاوان میں ملوث پولیس اہلکاروں کو جیل میں ڈال دیا جاتا تو وہ اہلکار چوروں کے گینگ کا حصہ نا بن سکتا اور اس کے انجام کو دیکھ کر دیگر ملازمین بھی سبق حاصل کرتے۔ انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب، ریجنل پولیس آفیسر بہاولپور اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر بہاولنگر کو جرائم میں ملوث پولیس آفیشلز کے خلاف قانونی کاروائی کے لیے سنجیدہ کوشش کرنی ہو گی ورنہ جس طرح عوام ڈاکوؤں اور چوروں سے بچاؤ کے لیے ٹھیکری پہرہ لگاتی ہے اسی طرح پولیس سے بچاؤ کے لیے بھی پہرہ لگانا پڑے گا اور پولیس کو دیکھ کر لوگ اپنی جان اور مال کو مزید غیر محفوظ سمجھنے لگیں گے۔