"گِدھ"

 "گِدھ"

معاشرے میں موجود "گِدھوں" کی حرام خوری کی سلسلہ وار کہانی 


"گِدھ"

تحریر

سیف الرحمن


"گِدھ"

گِدھ ایک مردار خور جانور ہے جو مردہ جانوروں کی لاشوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ میں نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے زمانے میں آسمان پر اڑتے ان بڑے پروں اور نوکیلے پنجوں والے جانوروں کے غول دیکھ رکھے ہیں۔ ہمارے گاؤں کے دو اطراف سیم زدہ بنجر زمین تھی جہاں پر گاؤں کے لوگ مردہ جانور پھینک دیتے تھے اور پھر جوک در جوک گِدھ وہاں پہنچتے اور چند گھنٹوں کے بعد ہی وہاں ہڈیوں کا ڈھانچہ پڑا نظر آتا۔

بچپن میں والدین اپنے بچوں کو "گِدھ" (مقامی نام ہیل یا ایل ) کا نام لیکر ڈرایا بھی کرتے تھے۔ یہ پرندہ شاید زندہ انسانوں یا بچوں کو نقصان بھی پہنچاتا ہو مگر کبھی نقصان پہنچاتے دیکھا نا سنا۔

زمانے کی تیز رفتار ترقی اور بدلتی روایات میں جانور مرنا کم ہو گئے یا پھر گِدھ کسی اور سیارے پر منتقل ہو گئے۔ گدھوں کی کمی یا " قحط الگِدھ" پر ایک دوست روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح ایک جنگل میں دو شیر نہیں رہ سکتے اسی طرح ایک ہی جگہ پر دو مختلف النسل گِدھ بھی نہیں رہ سکتے۔ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں جانور مر جاتا تھا تو لوگ اسے آبادی سے دور پھینک آتے تھے مگر اب جانور مر جائے تو اسے چھری پھیر کر قصائی کو بیچ دیتے ہیں۔ اس میں حلال یا حرام جانور کا بھی کوئی فرق نہیں بچا۔

آئے روز سنتے رہتے ہیں کہ مردہ جانوروں کا گوشت لے جاتے ہوئے یا بیچتے ہوئے بندہ یا بندے پکڑے گئے۔ وہ حرام بیچنے والے گدھ اپنے سے بڑے گِدھوں کو حرام میں سے حصہ کھلا کر بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

گدھ ہماری ایسی ہی کامیاب کاروائیوں کے نتیجے میں بھوکے مرتے  یا پھر غیرت کے مارے کہیں منہ کر گئے ہیں۔

اصلی گِدھ غائب ہو جانے کے بعد موجودہ زمانے کے گدھ بھی موقع اور بہانہ تلاش کرتے رہتے ہیں کہ حرام ملے اور کھائیں اور اگر آسانی سے حرام نا مل سکے تو پھر حلال کو ہی حرام بنا کھائیں۔ کیونکہ گدھ حلال نا کھاتا ہے اور نا کھا سکتا ہے۔

دنیا میں کرونا جیسی عالمی وبا نے پنجے گاڑے تو دنیا بھر میں لاشوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ اس وبا کے دوران کرونا سے بچاؤ کے لیے استعمال ہونے والی ہر چیز کئی گنا مہنگی ہو گئی۔ ناجائز منافع خوری کر کے حرام خوری کی گئی۔

آج کل پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی جنوبی حصہ جسے جنوبی پنجاب کہا جاتا ہے خشک سالی کی زد میں ہے۔ نہریں خشک ہو جانے کی وجہ سے فصلیں شدید متاثر ہو رہی ہیں۔ اس خشک سالی کا جہاں پر ملکی معیشت پر اثر پڑ رہا ہے وہیں پر کروڑوں کسانوں اور زراعت سے وابستہ کاروباری حضرات کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے وہیں پر ایک طبقہ ایسا بھی بھی جس کی معیشت کے لئے خشک سالی ایک تحفے کے طور پر سامنے آئی ہے۔ وہ گدھ ہیں جن کی سرکاری نوکری محکمہ نہر میں لگی ہوئی ہے۔ یہ گِدھ خشک سالی اور نہری پانی کی بندش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نہری پانی چوری کروا رہے ہیں اور کسانوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر اپنے بچوں کے پیٹ جہنم کی آگ سے بھر رہے ہیں۔ میرا تعلق ایسے دیہی علاقے سے ہے جہاں پر نہروں کی کثرت ہے۔ نہروں میں پانی کی کمی کی وجہ سے وارہ بندی کے لیے بند کی گئی نہروں پر پانی چوری کا گھمسان چل رہا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں پانی چوری کے بہت سے مواقع دیکھے ہیں مگر دن دیہاڑے نہروں پر پائپ اور "پنکھے"(یہ پانی اٹھانے والی مشین ہے اسے مقامی زبان میں پنکھا یا پکھا کہا جاتا ہے اس کے ٹیکنیکل نام کا مجھے علم نہیں ہے) لگے اب سے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔  رات کو تو وہ منظر ہوتا ہے جیسے پہاڑی علاقوں میں بجلی کے بلب رات کے وقت آسمان پر چمکتے تارے نظر آتے ہیں ویسے ہی پانی چوری کے لیے چلتی لائٹیں دن کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہیں۔ محکمہ نہر کے ملازمین گھر بیٹھے ڈالروں میں کھیل رہے ہیں۔ 

گدھ ہمارے علاقوں کی ثقافت کا حصہ تھے مگر وہ مردہ جانور ہی کھاتے تھے اب والے گِدھ تو زندہ کو مار کر کھا رہے ہیں۔

(نوٹ: معاشرے کے مختلف شعبوں میں موجود "گِدھوں" کے ساتھ تعارف کا قسط وار سلسلہ شروع کیا ہے۔ مختلف محکموں میں موجود "گِدھوں" کی حرام خوری کی تفصیلات قارئین تک پہنچائی جائیں گی۔ اگلی قسط میں محکمہ نہر کے "گِدھوں" کی لوٹ مار ، ان کے اثاثہ جات کی تفصیل اور دیگر معلومات دی جائیں گی)