لٹریسی سکول کی خاتون ٹیچر نے مبینہ طور پر ہاتھ پکڑنے اور ہراساں کرنے پر ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا۔ عوامی و سماجی حلقوں کا سخت کاروائی کا مطالبہ۔

 خواتین ٹیچرز  کی ہراسانی کے واقعات کنٹرول نا ہو سکے۔ لٹریسی سکول کی خاتون ٹیچر کو دفتر بلا کر ہراساں کرنے کا انکشاف۔ خاتون ٹیچر نے مزاحمت کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔  افسران بالا کی سرپرستی کی وجہ سے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی نے معاملہ دبا دیا۔

بہاولنگر (ایجوکیشن رپورٹر) خواتین ٹیچرز کی ہراسانی کے واقعات کنٹرول نا ہو سکے۔ لٹریسی سکول کی خاتون ٹیچر کو دفتر بلا کر ہراساں کرنے کا انکشاف۔ خاتون ٹیچر نے مزاحمت کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ افسران بالا کی سرپرستی کی وجہ سے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی نے معاملہ دبا دیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے خلاف کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت انکوائری جاری ہے۔ مگر اس دوران ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے۔ ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر نے ڈونگہ بونگہ سے تعلق رکھنے والی لٹریسی سکول کی خاتون ٹیچر (ر) کو دفتر میں بلایا اور اسے ہراساں کیا۔ ذرائع کے مطابق ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر نے خاتون ٹیچر کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تو خاتون ٹیچر نے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے منہ پر تھپڑ مار دیا اور شور و غوغا کر کے ساتھ والے کمرے میں موجود سٹاف کو متوجہ کر لیا۔ لٹریسی ڈیپارٹمنٹ کے سٹاف کے علاوہ ساتھ والے کمرے میں موجود ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بہاولنگر کے کلرکس و دیگر عملے نے خاتون کو دلاسہ دیا اور ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کو لعن طعن کی۔ ذرائع کے مطابق خاتون ٹیچر نے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے خلاف ہراساں کرنے پر درخواست گزار دی جسے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر نے اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے دبا دیا اور کوئی کاروائی نا ہونے دی۔ بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر نے خاتون ٹیچر کی طرف سے دی جانے والی گالیوں پر اپنے دفتر کے ہی ایک کنٹریکٹ ملازم کو انکوائری کرنے کے لیے کہا اور خاتون ٹیچر کو پریشرائز کر کے معاملہ دبا دیا۔

مشرقی معاشرے میں خواتین اپنی اور اپنے خاندان کی بدنامی کی وجہ سے ہراسانی کے واقعات رپورٹ کرنے سے احتراز کرتی ہیں اور خواتین کا یہ عمل جنسی درندوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسانی سے محفوظ رکھنے کے لیے سخت قانون موجود ہے مگر اس قانون پر عمل درآمد نا ہونے کی وجہ سے خواتین کی ہراسانی کے واقعات کنٹرول نہیں ہو سکے۔ حال ہی میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور رحیم یار خان کیمپس کے دو درندہ صفت اساتذہ کی فحش ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں جن میں وہ طالبات کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یہ اساتذہ طالبات کو ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل بھی کرتے تھے۔ جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے اس ویڈیو کی تردید کر دی گئی ہے اور سرکاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ان ویڈیوز کا یونیورسٹی کے اساتذہ یا طالبات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے واقعات کی وجہ سے خواتین کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

 ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر ملک اسلم سے اس واقعہ کے بارے میں موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان پر لگایا جانے والا الزام غلط اور بے بنیاد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جبکہ اس واقعہ کے عینی شاہدین میں سے ایک ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر بہاولنگر کے کلرک کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا میں اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھا اور میرا کمرہ ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے کمرے کے ساتھ ہے۔ خاتون کا شور سن کر میں دیگر ملازمین کے ساتھ باہر آیا تو خاتون رو رہی تھی اور اونچی آواز میں ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کو گالیاں دے رہی تھی۔ میں نے دیگر ملازمین کی موجودگی میں خاتون سے رونے اور چیخنے چلانے کی وجہ پوچھی تو خاتون نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر ملک اسلم نے میرا ہاتھ پکڑا ہے اور مجھے جنسی طور پر ہراساں کیا ہے۔ جس پر میں نے دیگر ملازمین کے ہمراہ ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی سے اس بابت پوچھا تو ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر ملک اسلم نے منت سماجت شروع کر دی اور معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کرنا شروع کر دی۔ جبکہ خاتون مسلسل گالیاں دیتی رہی۔

اس واقعہ کی بابت ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کے سٹاف ممبران نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی نے اس واقعہ کے بعد خاتون کو اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے کاروائی کرنے سے روکا۔ خاتون کی جانب سے دی گئی درخواست کو دبا دیا گیا۔ اگر غیر جانبدارانہ اور شفاف انکوائری کی جائے تو لٹریسی ڈیپارٹمنٹ بہاولنگر کے ملازمین اس وقوعہ کی گواہی دینے کے لیے تیار ہیں۔

ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کو سیکرٹری لٹریسی ڈیپارٹمنٹ پنجاب کے دفتر میں موجود اعلیٰ افسران کی سرپرستی حاصل ہے جس کی وجہ سے اس کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں ہوتی اور ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر بلا خوف و خطر کرپشن اور لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے معروف سماجی کارکن میاں آفتاب احمد خان جوئیہ ایڈووکیٹ نے خاتون ٹیچر کو ہراساں کرنے کے عمل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے روایتی طریقہ کار سے ہٹ کر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے نظام کی خامیاں ہراساں کرنے والوں کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین کی ہراسانی کی شکایات کو معمول کے مطابق ڈیل کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے کسی بھی افسر یا اہلکار کو ساتھی/ ماتحت خواتین کو ہراساں کرنے پر سزا نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ایجوکیشن اتھارٹی بہاولنگر میں خواتین ٹیچرز کو ہراساں کرنے کے واقعات تسلسل کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ روٹین کی انکوائری لگا کر ہراسانی کرنے والوں کو بچا لیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی قریب میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر فی میل بہاولنگر کے بااثر کلرک نے خواتین ٹیچرز کے آفیشل واٹس ایپ گروپ میں فحش تصویر شیئر کر دی تھی جس پر اسکے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے معاملے کو دبانے کے لیے اس کلرک کا تبادلہ کر دیا گیا۔ جبکہ چند ماہ قبل ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول بالا آرائیں نے خاتون ٹیچر کو ہراساں کیا مگر تاحال اس ہیڈ ماسٹر کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا سکی۔ پاکستان مسلم لیگ ق کے ضلعی سیکرٹری اطلاعات راجہ کوکب افتخار جنجوعہ نے کہا کہ ایسے سنگین نوعیت کے واقعات کو روکنے کے لیے سخت اور فوری اقدامات ضروری ہیں۔ اس واقعہ کے بارے میں سی ای او ایجوکیشن بہاولنگر سے مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پروب انکوائری کروائے بغیر میں اس واقعہ پر کمنٹ نہیں کر سکتا۔

عوامی سیاسی و سماجی حلقوں نے وزیراعلی پنجاب، سیکرٹری سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، سیکرٹری لٹریسی ڈیپارٹمنٹ پنجاب، کمشنر بہاولپور، ڈپٹی کمشنر بہاولنگر، سی ای او ایجوکیشن بہاولنگر اور اینٹی ہراسمنٹ سیل کی چیئرپرسن سے ڈسٹرکٹ آفیسر لٹریسی بہاولنگر کی جانب سے خاتون ٹیچر کو ہراساں کرنے پر انکے خلاف "کام کی جگہ پر ہراسانی " کے قانون کے تحت کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔