ضمنی الیکشن پی پی 237 کا تفصیلی جائزہ اور تاریخی حقائق

 ضمنی الیکشن پی پی 237 کا تفصیلی جائزہ اور تاریخی حقائق

ضمنی الیکشن پی پی 237 کا تفصیلی جائزہ اور تاریخی حقائق

تحریر

سیف الرحمن

 

رجیم چینج کے بعد پاکستان میں اس وقت سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے اور پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن نے سیاسی گہما گہمی کو بڑھا دیا ہے۔ بہاولنگر کے صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 237 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف سے منحرف ہو کر حکومتی اتحاد میں شامل ہونے والے میاں فدا حسین کالوکا وٹو کا مقابلہ پی ٹی آئی کے امیدوار سید آفتاب رضا شاہ اور تحریک لبیک کے امیدوار میاں راشد ملکوکا وٹو سے ہے۔ یہ سیٹ روایتی طور پر کالوکا خاندان کی سمجھی جاتی ہے۔

پاکستان کی سیاست اور حکومت سازی کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو مزاحمت کے استعارے کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ بھٹو مرحوم کے حامی ہوں یا بدترین مخالف سب ہی یہ مانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کی نبض پہچانتے تھے۔ پاکستان کی سیاست بھٹو صاحب کی زندگی میں اور بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد پرو بھٹو اور اینٹی بھٹو کی تقسیم کے تحت رہی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد فوجی آمر ضیاء الحق نے 1985 میں اپنی نگرانی میں غیر جماعتی الیکشن کروائے مگر بھٹو صاحب کی پارٹی نے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا جسے بعد میں محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ نے سنگین سیاسی غلطی قرار دیا۔

 1985 کے الیکشن میں یہ حلقہ پی پی 225 تھا جس میں میاں خادم حسین کالوکا وٹو 24819 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل سردار خاں میاں 21118 اور محمد اکرم میاں نے 6888 ووٹ حاصل کئے۔

1988 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے میاں خادم حسین کالوکا وٹو نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور 26212 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار محمد اکرم 21491 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ 

1990 کے عام انتخابات میں میاں خادم حسین کالوکا وٹو تیسری مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے انہوں نے آئی جے آئی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور 32669 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل  پاکستان ڈیموکریٹک الائنس کے امیدوار حاجی سردار خان گدھوکا وٹو نے 28052 ووٹ حاصل کئے۔ 

1993 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر حاجی سردار خان گدھوکا 43427 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل اس حلقے سے مسلسل تین مرتبہ جیتنے والے پاکستان مسلم لیگ جونیجو کے امیدوار میاں خادم حسین کالوکا وٹو نے 20146 ووٹ حاصل کئے ۔ 

1997 کے عام انتخابات میں حاجی سردار خان نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور 28936 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار میاں خادم حسین کالوکا وٹو نے 21984 ووٹ حاصل کئے۔ جبکہ پاکستان مسلم لیگ جونیجو کے امیدوار سید محمد اصغر شاہ نے 5732 ووٹ حاصل کئے۔

فوجی آمر پرویز مشرف نے سیاسی انجینئرنگ کے بعد اپنی نگرانی میں 2002 میں الیکشن کروائے۔ اس حلقے کو پی پی 277 کا نام دیا گیا.

میاں خادم حسین کالوکا وٹو نے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور 45495 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں حامد حسن وٹو نے 12323 ووٹ حاصل کئے۔ اور پیپلز پارٹی کے امیدوار طلعت محمود ککے زئی نے 4624 ووٹ حاصل کئے۔ 

2008 کے عام انتخابات میں میاں خادم حسین کالوکا وٹو نے پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور 38532 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار سید محمد اصغر شاہ نے 17650 ووٹ حاصل کئے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار میاں محمد اکرم وٹو نے 16186 ووٹ حاصل کئے۔ 

میاں خادم حسین کالوکا وٹو کی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں انکے چھوٹے بھائی میاں فدا حسین کالوکا وٹو کامیاب ہو کر اسمبلی میں پہنچے۔ 

2013 کے عام انتخابات میں میاں فدا حسین کالوکا وٹو نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لیا اور 47357 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل آزاد امیدوار میاں طارق عثمان گدھوکا وٹو نے42763 ووٹ حاصل کئے جبکہ پاکستان سنی تحریک کے امیدوار سید احمد شاہ نے 12931 ووٹ حاصل کئے۔ 

2018 کے عام انتخابات میں میاں فدا حسین کالوکا وٹو نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا اور 56411 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے مدمقابل 

پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار میاں طارق عثمان گدھوکا وٹو نے 47630 ووٹ حاصل کئے اور تحریک لبیک کے امیدوار سید احمد شاہ نے 12874 ووٹ حاصل کئے۔

1985 سے لیکر اب تک اس حلقے میں 10 مرتبہ الیکشن ہوئے جن میں سے 8 مرتبہ کالوکا خاندان نے میدان مارا۔

اس حلقے میں سیاست کا انداز دیگر علاقوں سے تھوڑا سا مختلف ہے۔ پاکستان انڈیا کے بارڈر پر ہونے کی وجہ سے یہاں کی کیمیائی ترکیب بھی تھوڑی سی مختلف ہے ۔ تھانہ، کچہری اور پٹوار خانے کے مسائل یہاں کے الیکشن کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ کالوکا خاندان کو تھانے، کچہری اور پٹوار خانے کے مسائل پر عبور حاصل ہے اس لیے کالوکا خاندان صوبائی اسمبلی کی نشست پر تقریبا ناقابل شکست قرار پا چکا ہے۔ کالوکا خاندان نے مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت سے الیکشن میں کامیاب ہو کر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ کے محتاج نہیں ہیں بلکہ سیاسی پارٹیوں کو ان کی ضرورت ہے۔ الیکشن 2018 میں میاں فدا حسین کالوکا وٹو کی آزاد امیدوار کی حیثیت سے پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں کامیابی اور انکے بھتیجے اور میاں خادم حسین کالوکا وٹو کے بیٹے میاں عبدالغفار کالوکا وٹو کی قومی اسمبلی کے الیکشن میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیابی کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اور حالیہ رجیم چینج میں کالوکا خاندان کی جانب سے اہم کردار نے ثابت کیا کہ کالوکا خاندان سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔

17 جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں میاں فدا حسین کالوکا وٹو کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے قدرے کمزور امیدوار کی وجہ سے بظاہر یہ الیکشن یکطرفہ نظر آ رہا ہے جبکہ ان کے روایتی مدمقابل گدھوکا خاندان کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ نا ملنا اور یا انکی طرف ٹکٹ نا لینا میاں فدا حسین کالوکا وٹو کے لیے مقابلہ کے بغیر جیتنے کا سبب بنا ہے۔

ضلع بہاولنگر میں بھی پنجاب کے دیگر دیہی حلقوں کی طرح جاگیر داروں کا سیاست پر قبضہ ہے۔ جاگیر دار سیاست دانوں کے لیے پارٹی تبدیل کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ کالوکا خاندان کے سیاسی مخالفین عمومی طور پر تنقید کرتے ہیں کہ کالوکا خاندان جماعتیں تبدیل کرتا رہتا ہے جبکہ اگر دیکھا جائے تو ان کے سیاسی مخالفین بھی جماعتیں تبدیل کرتے رہے ہیں۔ (جاری ہے)