شہر وفا کے " بیویوں کا تبادلہ کرنے والے نشئی مسیحا"

 شہر وفا کے " بیویوں کا تبادلہ کرنے والے نشئی مسیحا"

شہر وفا کے " بیویوں کا تبادلہ کرنے والے نشئی مسیحا" 

تحریر

سیف الرحمن 


بہاولنگر کو شہر وفا بھی کہا جاتا ہے۔

بہاولنگر صحت اور تعلیم کے لحاظ سے پسماندہ ہے۔ اس پساندگی کی بہت سی وجوہات ہیں مگر سب سے اہم وجہ شہریوں کی شہر سے اور شہر کے معاملات سے لاتعلقی ہے۔ بہاولنگر کے مختلف اداروں میں مختلف اوقات میں کرپٹ افسران و اہلکار لوٹ مار کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ عوام ان لٹیروں سے لاتعلق ہے۔

جنگ کے دوران ہسپتال وہ مقام ہے جس پر دشمن بھی حملہ نہیں کرتا۔ ہسپتال پر حملہ کرنے کو جنگی جرم قرار دیا جاتا ہے مگر شہر وفا کے سب سے بڑے ہسپتال پر بہت بڑے مافیا نے حملہ کیا ہوا ہے اور مسلسل وار کیے جا رہے ہیں۔ گو کہ ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام دینے میں مصروف ہے مگر کچھ کالی بھیڑیں ڈاکٹرز کے بھیس میں اس مقدس پیشے کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں 

ضلع بہاولنگر کے سب سے بڑے ہسپتال ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر میں گزشتہ کئی سالوں سے لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ لٹیروں کو سیاسی شخصیات اور ان کے چیلوں چانٹوں کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ جعل سازی کے ذریعے یہ لٹیرے کروڑوں کا غبن کر چکے ہیں اور ان میں سے کچھ لٹیرے ہاتھ میں تسبیح بھی رکھتے ہیں۔

ضلع بہاولنگر کے سب سے بڑے ہسپتال میں آج کل ایک ایسا خوفناک ٹرینڈ چل رہا ہے جسے ہم صرف یورپی ممالک میں سنتے تھے یا پھر بڑے شہروں کی ایلیٹ میں ایسی حرکتوں کی سرگوشیاں سنتے تھے۔ بہاولنگر ضلع کے سب سے بڑے ہسپتال میں تعینات ایک معروف سرجن اور ایک دوسرے معروف ڈاکٹر صاحب کے بارے میں ایسی غلیظ اور گھٹیا بے غیرتی والی حرکت زبان زد عام ہے کہ اس پر صحافی بھی خاموش ہیں اور سول سوسائٹی بھی خاموش ہے۔

اس بابت ایک ذمہ دار صحافی سے بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ یہ انکی ذاتی زندگی کے معاملات ہیں ہمیں اس سے کیا غرض ۔۔۔۔۔

میں کسی کی بھی ذاتی زندگی اور ذاتی معاملات میں دخل اندازی کو سخت ناپسند کرتا ہوں مگر ڈاکٹرز کی طرف سے "بیویوں" کا تبادلہ انکی ذاتی زندگی نہیں ہے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو علم ہے کہ ان بے غیرتوں نے اپنی بیویوں کا تبادلہ کر لیا تھا۔ اور پھر بیویوں کے تبادلے کو ختم کرنے کے لیے غیر رسمی پنچایتیں بھی ہوئی۔ اور بات طلاق پر ختم ہوئی ہے۔ بیوی کے والدین کی طرف سے طلاق لیے جانے کے بعد یہ جنسی درندہ نفسیاتی مریض بن چکا ہے۔ عوام اسکی اس غلیظ حرکت سے لاعلم ہے اور علاج معالجے کے لیے اس کے پرائیویٹ ہسپتال کو ترجیح دی جاتی ہے۔

 ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر کا معروف سرجن جو ایک بڑا پرائیویٹ ہسپتال بھی چلاتا ہے وہ آئس کا نشہ کرتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہ اسکی ذاتی زندگی ہے۔

بد کردار ڈاکٹرز کے پاس خواتین مریض بھی لائی جاتی ہیں۔ یہ اپنی بیویوں کا تبادلہ کرنے والے بے غیرت مسیحا کیسے کسی خاتون کو چیک کر سکتے ہیں۔ انکو تو جیل میں ہونا چاہیے یا پھر کسی نفسیاتی ہسپتال میں۔ آئس کا نشہ کرنے والے ڈاکٹر کا سرکاری ہسپتال میں یا پرائیویٹ ہسپتال میں مریضوں کا آپریشن کرنا مریضوں کو قتل کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔  بدکردار اور نشئی مسیحا کو نا صرف سیاسی شخصیات کے معروف چیلوں اور چٹی دلالی کرنے والے نام نہاد معززین کی حمایت حاصل ہے بلکہ ضلعی انتظامیہ کی بھی مدد اور حمایت حاصل ہے۔

کیا بہاولنگر کی سول سوسائٹی بانجھ ہو چکی ہے کہ بدکردار سرجن کو کوئی پوچھنے والا نہیں ۔۔۔۔۔

آئس کے نشے میں دھت سرجن کو مریضوں کو قتل کرنے کی کوشش کا لائسنس دے دیا گیا ہے ؟؟

آئس کے نشے کے عادی معروف سرجن کو چند ماہ قبل انکے ورثاء علاج معالجے کے لیے بہاولنگر سے باہر ایک بڑے شہر میں منشیات کے عادی افراد کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے۔ مگر اس نشئی مسیحا کی عادت نہیں چھوٹ سکی۔ سول سوسائٹی کو اس نشئی سرجن اور اس کے پرائیویٹ ہسپتال کے خلاف میدان میں نکلنا چاہئیے۔ اس کے ڈوپ ٹیسٹ کا مطالبہ کرنا چاہئیے ۔ علماء کرام کو نشہ کرنے والے ڈاکٹر سے علاج معالجہ کروانے کی شرعی حیثیت کا بتانا چاہئیے۔ تاکہ لاعلمی میں عوام بیویوں کے تبادلے کے ماہر اس بدکردار اور آئس کا نشہ کرنے والے سرجن سے محفوظ رہ سکیں۔ آئس کا نشہ کرنے والے مافیا نے نوجوان ڈاکٹرز کو بھی نشئی بنانا شروع کر دیا ہے۔ سول سوسائٹی کو فوری طور پر اس لعنت کے خلاف اعلان جہاد کرنا چاہئیے۔ ہم کب تک اپنے ہسپتال سے خود کو لا تعلق رکھیں گے۔ ضلعی انتظامیہ کے بڑے افسر بھی خاموش ہیں ذرائع بتاتے ہیں کہ وہ بھی شریک جرم ہیں اس لیے بلیک میل ہو رہے ہیں۔ بہاولنگر کی سول سوسائٹی تو شریک جرم نہیں ہے۔ تو پھر ہم کیوں خاموش بیٹھ کر ہسپتال کو تباہ ہوتا دیکھیں؟؟؟

(جاری ہے)