"افسران کی جنت"

 "افسران کی جنت"


تحریر: سیف الرحمن

"افسران کی جنت"


تحریر: سیف الرحمن

 

ضلع بہاولنگر عوام کے لیے دستیاب سہولیات کے لحاظ سے پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں سے ایک ہے۔ یہاں کے لیے ایک مقولہ مشہور ہے کہ افسران بہاولنگر روتے ہوئے آتے ہیں اور روتے ہوئے ہی جاتے ہیں۔ چند سال پہلے یہ مقولہ سنا تو اسے محض ایک مذاق سمجھا۔ ایک صحافی دوست سے اس بابت تفصیل جاننے کی کوشش کی تو انہوں نے بتایا کہ افسران کی جب بہاولنگر پوسٹنگ ہوتی ہے تو وہ اس کی پسماندگی کی وجہ سے روتے ہیں اور اس پوسٹنگ کو سزا سمجھتے ہیں مگر جب یہاں پر پہنچتے ہیں بلکہ کچھ افسران کو تو یہاں کے لوگ انکے گھر یا سابقہ جائے تعیناتی سے باقاعدہ " وصول" کرنے کے لیے بھی پہنچ جاتے ہیں۔

ضلع بہاولنگر میں پنجاب کے دیگر اضلاع کی طرح ہر محکمے میں سرکاری اور غیر سرکاری مافیا سرگرم ہے۔ یہ مافیا خود بھی مالا مال ہو چکا ہے۔ چند سال پہلے تک چٹی دلالی کر کے گزر بسر کرنے والے آج شہر کے بڑے کاروباری بن چکے ہیں۔ بڑے بڑے کاروباری ادارے قائم کر چکے ہیں۔ دوسری طرف ان کے ساتھی سرکاری ملازمین بھی اپنی اپنی بزنس ایمپائر کھڑی کر چکے ہیں۔ درجہ چہارم کے ملازمین پراپرٹی ٹائیکون بن چکے ہیں۔ مافیا کے ان کارندوں کی بدولت یہاں آنے والے افسران کو مال کمانے کے انوکھے طریقے سیکھنے کو ملتے ہیں اور پھر جب ان افسران کا بہاولنگر سے تبادلہ ہوتا ہے تو کرپٹ افسران روتے ہوئے یہاں سے جاتے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ بہاولنگر جتنی لوٹ مار انہیں کہیں نہیں ملے گی۔


موجودہ ڈپٹی کمشنر بہاولنگر میں پوسٹنگ سے پہلے گوادر میں تعینات تھے گوادر سے بہاولنگر پوسٹنگ کا مطلب کھڈے لائن لگنا ہی تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اسی طرح موجودہ اسسٹنٹ کمشنر بہاولنگر کا چند روز پہلے تبادلہ ہوا تو موصوف عدالت سے اسٹے آرڈر لینے جا پہنچے اور پھر "مال" کی چمک کی بدولت واپس بہاولنگر آ دھمکے ہیں اور بضد ہیں کہ بہاولنگر کی عوام کی "خدمت" میں جو مزہ ہے وہ کہیں اور نہیں ہے۔


منچن آباد سے حال ہی میں تبدیل ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر اپنی پوسٹنگ فورٹ عباس کروا کر بہاولنگر ضلع کی خدمت جاری رکھے ہوئے ہیں موصوف بہاولنگر میں تحصیلدار بھی رہ چکے ہیں۔


 ایک سابق اسسٹنٹ کمشنر جو کہ آج کل "تقریباً" ڈپٹی کمشنر لگے ہوئے ہیں انہوں نے بھی اپنی سروس بہاولنگر میں ہی پوری کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔


چند سال قبل بہاولنگر میں رہ کر جانے والے ایک ڈپٹی کمشنر جو کچھ عرصہ قبل وزیراعلی آفس میں طاقتور پوسٹ پر تعینات تھے وہ بہاولنگر کے ٹھیکوں پر اب بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور ٹھیکیداروں کے ایک بڑے مافیا کے سرپرست سمجھے جاتے ہیں۔


اسی طرح ایک سابق ڈپٹی کمشنر اب بھی محکمہ تعلیم کی خاتون آفیسر کی تقرری ، تعیناتی اور تبادلے وغیرہ کی "بقلم خود" نگرانی کرتے ہیں۔


ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے افسران کو تو بہاولنگر سے تبادلہ ہونے پر موت نظر آتی ہے۔ ان افسران سے زیادہ انکے "محبان" روتے پیٹتے نظر آتے ہیں۔ 


سی ای او ہیلتھ اور ایم ایس ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بہاولنگر کا تبادلہ ہوا تو وہ بھی عدالت جا پہنچے۔

موجودہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر بہاولنگر کو رمضان المبارک میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران رشوت وصول کرتے ہوئے اینٹی کرپشن پولیس نے مجسٹریٹ کی موجودگی میں رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا تھا اور موصوف پھر ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر تعینات ہو کر بہاولنگر کی عوام کی"خدمت" پر معمور ہو چکے ہیں۔


اس کے علاوہ بھی درجنوں افسران کی مثالیں موجود ہیں جو بہاولنگر کی عوام کی "خدمت" کرنے پر بضد ہیں.


البتہ گزشتہ ہفتے اپنی نوعیت کا ایک انوکھا واقعہ بھی دیکھنے کو ملا جب سی ای او ایجوکیشن مسٹر کستورا جی شاد کا تبادلہ ہوا تو انہوں نے نئے آنے والے افسر مسٹر ظہور احمد چوہان کو ویلکم کیا۔ انکو سی ای او کی سیٹ پر بٹھایا اور خود سامنے بیٹھ گئے۔ ملازمین سے الوادعی ملاقات کی، اپنا سامان اٹھایا اور بہاولنگر سے چلے گئے۔ اسکی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ان میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ افسر اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے تھے اور غیر مسلم ہونے کی وجہ سے صرف بہاولنگر کی "خدمت" پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ بلکہ وہ یہاں اپنی ڈیوٹی کرنے آئے تھے۔ "خدمت" کے لیے مسلمان افسر ہی کافی ہیں۔

(قسط نمبر:1)