"صرف دو استاد"

 "صرف دو استاد"


تحریر: سیف الرحمن کلوکا


چیئرمین مجلس عاملہ ڈسٹرکٹ یونین آف جرنلسٹ بہاولنگر



"صرف دو استاد"

تحریر

سیف الرحمن کلوکا

 

آج کے مادی دور میں مہنگائی نے ہمیں جہاں مالی طور پر دیوالیہ کر دیا ہے وہیں پر ہماری روایات اور ایمانداری بھی ہم سے چھین لی ہے۔ عام طور پر پولیس اور پٹواری کرپشن کی علامت کے طور پر مشہور ہیں مگر اب شاید بات پولیس اور پٹواری سے آگے نکل کر انکے استادوں تک پہنچ گئی ہے۔ اساتذہ کرام قوم کے معمار ہوتے ہیں اور اگر اساتذہ کرام بھی حالات کے دھارے کے مطابق اخلاقیات اور اصول اپنانے لگیں گے تو معاشرہ کس طرف جائے گا۔

مجھے اپنے پرائمری سکول کے اساتذہ یاد ہیں۔ انکا رہن سہن ، بول چال اور لین دین مثالی تھا۔ اس وقت کے اساتذہ عزت و تکریم کی معراج پر تھے۔ اب گردش زمانہ نے اساتذہ کرام کے قدم ڈگمگا دئیے ہیں یا پھر کسی فلم کے گانے کے بول/ ڈائیلاگ کے مطابق " باپ بڑا نا بھیا ۔۔۔ سب سے بڑا روپیہ۔۔" اساتذہ کرام کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

ملک بھر میں ڈیجیٹل مردم شماری کے دوران اساتذہ کرام سمیت مختلف محکموں کے ملازمین کی ڈیوٹیاں لگائی گئیں۔ مردم شماری سٹاف کو ٹرانسپورٹ فراہمی کے لیے فنڈ مختص کیا گیا۔ ہر سپروائزر کو گاڑی فراہم کرنے کے لیے ٹھیکہ دیا گیا۔ ٹرانسپورٹ کے ٹھیکدار نے چند اساتذہ کے ٹھیکیداروں (نام نہاد یونین لیڈرز) کے ساتھ مل کر سپروائزرز کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی بجائے 15 سو روپے روزانہ کے حساب سے دینے شروع کر دئیے۔ چند اساتذہ کرام نے 6 ہزار روزانہ میں سے 15 سو روپے روزانہ وصول کرنے سے انکار کر دیا ۔ معاملہ میڈیا کی زینت بنا۔ سابقہ ڈپٹی کمشنر بہاولنگر نے حکم دیا کہ تمام سپروائزرز ٹرانسپورٹ فراہمی کا تصدیقی سرٹیفیکیٹ روزانہ کی بنیاد پر جمع کروائیں۔ ٹھیکدار نے معاملہ بگڑنے کے بعد اساتذہ کرام کا ریٹ بڑھا دیا (روزانہ 15 سو کی بجائے 2 ہزار اور 25 سو روپے)۔ معزز اساتذہ کرام نے 25 سو روپے وصول کر کے گاڑی کے جعلی نمبرز اور ڈرائیورز کے فرضی نام لکھ کر سرٹیفکیٹ جمع کروانے شروع کر دئیے۔ معزز اساتذہ کرام نے پیسے کے لالچ میں اپنا مقام بھی نا دیکھا اور اپنا ریٹ بھی نا دیکھا۔

مورخہ 30 اپریل بروز اتوار چھٹی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام تحصیلوں کے اسسٹنٹ کمشنرز نے معزز اساتذہ کرام کو ٹرانسپورٹ فراہمی کے سرٹیفکیٹ کی ویری فیکیشن کے لیے طلب کیا۔ قحط الرجال کے اس دور میں "2 استاد" ایسے سامنے آئے جنہوں نے ٹرانسپورٹ نا ملنے کی تصدیق کی جبکہ باقی تمام اساتذہ کرام نے تصدیق کی کہ جو گاڑی کا نمبر انہوں نے سرٹیفکیٹ پر لکھا ہے وہ گاڑی انکے زیر استعمال رہی ہے اور اس گاڑی کے ڈرائیور کا نام اور کوائف بھی درست ہیں۔

ضلع بھر میں تصدیقی عمل میں شامل اساتذہ کرام مختلف عمروں کے تھے۔ ان میں تبلیغی جماعت سے وابستہ اساتذہ کرام بھی تھے، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث اور اہل تشیع بھی تھے۔ مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے یہ معزز اساتذہ کرام ایک نکتے پر متفق تھے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے۔

یہ اساتذہ کرام مذہبی اختلاف رکھنے والوں کو پکا جہنمی سمجھتے ہیں۔ 

"صرف دو استاد" ایسے تھے جنہوں نے ثابت کیا کہ استاد کے مقام اور مرتبہ کے سامنے مال و دولت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان دو معزز اساتذہ کرام کو تہہ دل سے سلام۔

ڈپٹی کمشنر بہاولنگر نے اپنا مثبت کردار ادا کیا ہے اور اساتذہ کرام کی تصدیق کے بغیر ٹرانسپورٹ کے بلز پاس نہیں کیے۔ مگر کرپشن مافیا کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو اساتذہ کرام کو ٹرانسپورٹ فراہم نا کرنے کا علم ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ٹرانسپورٹ فراہمی کے سرٹیفکیٹ فرضی ہیں۔ مگر اس کے باوجود کاروائی پوری کرنے کے لیے سرٹیفکیٹس کی ویری فیکیشن مکمل کی جا رہی ہے۔ معزز اساتذہ کرام کے موبی کیش اکاؤنٹس میں بھیجے گئے پیسوں کا ریکارڈ موجود ہے مگر ٹھیکدار کے بلز پاس کرنے کی جلدی افسران کو زیادہ ہے۔ جو اسسٹنٹ کمشنر اور انکا عملہ اس گندے دھندے میں شامل ہیں وہی ویری فیکیشن کر رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر بہاولنگر کو چاہئیے کہ کروڑوں روپے کے اس غبن کو پکڑنے کے لیے غیر جانبدار کمیٹی تشکیل دیں جس میں خفیہ اداروں کے ذمہ داروں کو بھی شامل کیا جائے اور سرٹیفکیٹس کی ویری فیکیشن کی بجائے معاملے کی انکوائری کروائی جائے کہ سپروائزرز کو ٹرانسپورٹ دی گئی ہے یا پیسے۔۔ ثبوت موجود ہیں۔ اچھی نیت کی ضرورت ہے۔