اونچی دکان پھیکا پکوان۔کروڑوں روپے کا بجٹ استعمال کرنے کے باوجود رائس ریسرچ اسٹیشن گیارہ سال میں چاول کی ایک بھی قسم متعارف نا کروا سکا

 اونچی دکان پھیکا پکوان۔ رائس ریسرچ سینٹر بہاولنگر کی  11 سال کی کارکردگی صفر۔ کروڑوں روپے کا بجٹ استعمال کرنے کے باوجود چاول کی ایک بھی قسم متعارف نا کروائی گئی۔

بہاولنگر (بیورو رپورٹ) اونچی دکان پھیکا پکوان۔ رائس ریسرچ سینٹر بہاولنگر کی  11 سال کی کارکردگی صفر۔ کروڑوں روپے کا بجٹ استعمال کرنے کے باوجود چاول کی ایک بھی قسم متعارف نا کروائی گئی۔ تفصیلات کے مطابق سال 2012 میں 148 ملین کی لاگت سے بنایا جانے والا بہاولنگر  رائس ریسرچ سنٹر پنجاب کا دوسرا ریسرچ سینٹر تھا۔ جدید سہولیات سے آراستہ بہاولنگر رائس ریسرچ اسٹیشن کا افتتاح سابق وزیر اعلیٰ محمد شہباز شریف نے 22 اکتوبر 2022 کو کیا تھا۔ اس ادارہ کا مقصد جنوبی پنجاب کے لیے چاول کی نئی اقسام کو فروغ دینا، زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کے خالص اور معیاری چاول کے بیج کی فراہمی اور   کسانوں کے لیے مٹی و پانی کا تجزیہ کرنا،  کسانوں کو  چاول کی براہ راست بوائی کی ترغیب دینا، رائس فیلڈ کے دورے اور سیمینارز منعقد کروانا، دھان اور چاول کی پروسیسنگ ، خریداروں/ تاجروں کو تربیت دینا، کنسلٹنسی خدمات،  رائس ملز کا دورہ کر کے جدید چاول کی پروسیسنگ ٹیکنالوجی پر آگاہی سیمینار منعقد کرنا /کانفرنسز کرنا تھا مگر حکومتی عدم دلچسپی کی وجہ  رائس ریسرچ اسٹیشن  بہاول نگر اغراض و مقاصد پورے کرنے کی بجائے بجٹ استعمال کرنے کا ٹھکانہ بن کر رہ گیا۔ 11سال گزر جانے کے باوجود بہاولنگر رائس ریسرچ اسٹیشن  ابھی تک  چاول کی ایک بھی نئی ورائٹی متعارف نہیں کروا پایا۔

حالانکہ رائس ریسرچ سٹیشن کے قیام کا بنیادی مقصد پاکستان میں بھی دیگر زرعی ممالک کی طرح زیادہ پیداوار اور جدید ٹیکنالوجی سے ہمکنار سمارٹ بریڈ متعارف کروانا تھا۔ مؤقف جاننے کے لیے رائس ریسرچ اسٹیشن کے چیف سائنٹسٹ ڈاکٹر اعجاز سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ محدود وسائل اور عملے کی کمی کے ساتھ، RRS جنوبی پنجاب میں کسان برادری کی خدمت کے لیے اپنی بہترین کوششیں کر رہا ہے۔ ہماری 2 جدید اقسام نیشنل ایویلیوایشن ٹرائل میں ہیں اور منظوری کے بعد تجارتی پیمانے پر کاشت کے لیے دی جائیں گی۔ یہ اسٹیشن 2018 سے ہر سال محکمہ زراعت توسیع اور پیسٹ وارننگ کے محکموں کے لیے ماسٹر ٹریننگ پروگرام کا انعقاد کر رہا ہے۔انہوں مزید بتایا کہ  یہ اسٹیشن رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے اور مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں چاول کی چھ اقسام پیدا ہوئیں جو پنجاب میں کاشت کی جا رہی ہیں اور کسان بہترین پیداوار اور کمائی کر رہے ہیں۔

ڈائریکٹر رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کالا شاہ کاکو سے اس بابت مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

محکمہ زراعت توسیع کے ڈپٹی ڈائریکٹر لطیف اللہ چوہدری اور پیسٹ کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے ضلعی افسر مسٹر رضوان سے رائس ریسرچ اسٹیشن کی افادیت اور ٹریننگ پروگرام کے حوالے سے رابطہ کر کے پوچھا گیا مگر انہوں نے بھی اس بابت کوئی جواب نہیں دیا۔

چاول کے کاشتکار سجاد عبداللہ مسلہ نے بتایا کہ رائس ریسرچ اسٹیشن بہاولنگر کی دریافت کردہ چاول کی کوئی بھی قسم کاشت کے لیے دستیاب نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ٹریننگ بھی شاید کاغذوں میں ہی ہوتی ہے۔ سجاد عبداللہ مسلہ نے کہا کہ بہاولنگر چاول کی کاشت کا مرکز ہے اور یہاں سے سیلہ چاول دنیا بھر میں بھیجا جاتا ہے مگر حکومتی عدم توجہی کی بنا پر عرصہ دراز سے روایتی کاشتکاری کرنے پر مجبور ہیں۔